فوٹو تھراپی
_ فوٹو تھراپی
جن بچوں کو پیدائشی یرقان ہوتا ہے اگر ان کا فوری علاج نہ کیا جائے تو خون میں موجود بلوروبینبچے کے دماغ پر اثر انداز ہو کر اس کو سیریبیرل پالسی ( Cerebral palsy (CP)) میں مبتلاکرسکتی ہے جس کی وجہ سے بچہ جسم کو حرکت دینے سے معذور ہوجاتا ہے۔ ایسے بچے زیادہسے زیادہ دس بارہ سال ہی جی پاتے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ پیدائشی یرقان کی اگر فوریتشخیص نہ کی جائے اور لاپرواہی برتی جائے تو کس قدر سنگین نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ جبکہ اسکا علاج بڑا آسان ہے۔ ایسے بچوں کو ایک ٹرانسپیرنٹ باکس میں رکھ کر نیلی روشنی کی شعاعوںمیں رکھا جاتا ہے اور بچہ تین سے چار دن میں یرقان سے شفایاب ہوجاتا ہے۔
ہمارے یہاں ابھی یہ علاج اور بچوں کے پیدائشی یرقان کی تشخیص کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتیجس کی وجہ سے درجنوں بچے سیریبرل پالسی کا شکار ہوکر معذور و اپاہج ہوجاتے ہیں اورمختصر زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس دوران ان کے والدین کو جسشدید ذہنی اذیت اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ وہی جانتے ہیں جن پر گزرتی ہے یا گزرچکی ہے۔ اس سلسلے میں والدین اور ڈاکٹرز دونوں کو احتیاط کرنی چاہئے۔ ھسپتالوں اور میٹرنٹیہومز میں فوٹوتھراپی باکسز کا لازمی انتظام ہونا چاہئے۔ یہ زرا سی احتیاط بچے اور والدین کو ایکبہت بڑی مصیبت و اذیت سے بچا سکتی ہے۔
جن بچوں کو یرقان ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، ان میں یہ شامل ہیں:👇
وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے۔
کسی انفیکشن جیسے پیشاب کی نالی کے انفیکشن میں مبتلا بچے۔
Rhesus (ریسس) یا Rh بچے۔
جس بچے کے خون کا گروپ اپنی ماں سے مختلف ہو، اس کے خون کے خلیات زیادہ تیزی سےٹوٹپھوٹ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں یرقان ہو جاتا ہے
رمیانی حد کے یرقان کا علاج اس طرح کیا جاتا ہے کہ بچے کو ننگےبدن (آنکھوں پر حفاظتی ماسکلگا کر) ایک تیز روشنی یا نیلاہٹ مائل روشنی کے نیچے رکھا جاتا ہے۔ اسے فوٹوتھراپی کہتے ہیںاور یہ علاج
کئی طریقوں سے محفوظ طور پر کیا جا سکتا ہے۔ فوٹو تھراپی کی روشنی جلد میں موجودbilirubin کو توڑ پھوڑ کر یرقان کو ہلکا کر دیتی ہے۔ اس علاج سے آپ کے بچے کا پاخانہ پتلا ہوسکتا ہے۔ اس مسئلے سے نبٹنے کیلئے آپ کے بچے کو زیادہ مائع پلایا جاتا ہے۔ نگرانی کے بغیربچے کو دھوپ میں براہ راست رکھنے کا مشورہ نہیں دیا جاتا کیونکہ یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے اوربچے کی جلد جھلس سکتی ہے۔
شدید یرقان میں آپ کے بچے کو خون لگانے کے خاص عمل کی ضرورت ہو سکتی ہے جس میں بچےکے خون کی جگہ تازہ خون دے کر (خون بدلنا) اس کے جسم سے bilirubin نکالا جاتا ہے۔
اگر جگر کی بیماری کے شواہد موجود ہوں (ہلکے رنگ کا پاخانہ، گہرے رنگ کا پیشاب، گھلی ہوئیbilirubin کی بلند سطح، جگر کے فعل کے ٹیسٹوں کے ابنارمل نتائج) تو بچے کو فوری طور پرPaediatricGastroenterologist کے پاس بھیجنا ضروری ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں میں اپنے عزیز ترین دوست جناب
Zafar Iqbal Muhammad
صاحب کا ذاتی تجربہ ان کے اپنے الفاظ میں کاپی کرکے شئر کررہا ہوں۔
“ہمارا تیسرا فرزند حسین ملک پیدا ہوا تو وہ بالکل ٹھیک تھا ، بس آنکھیں پیلی تھیں- ہم نے اسطرف توجہ نہ کی اور بچّے کو ہسپتال سے ڈسچارج کرا کے ہنسی خوشی گھر لے آئے-
اگلے دو روز میں بچّے کی آنکھیں مزید پیلی ہوئیں تو فکر لاحق ہوئی- آس پاس محلّے کی سیانیمائیوں نے سمجھایا کہ فکر کی بات نہیں- یہ پیدائشی یرقان کی علامت ہے- بچّے کو صبح کیدھوپ دو- دوتین روز میں ٹھیک ہو جائے گا-
تیسرے روز عصر کے وقت بچّے کو دورے پڑنا شروع ہوئے تو ہسپتال کا رخ کیا- وہاں ڈاکٹر نے حالتدیکھ کر ایک بڑے ہسپتال کی طرف روانہ کیا- میں نے زچّہ بچّہ کو ایمبولینس میں ہسپتال روانہ کیااور خود موٹر سائیکل پہ ساتھ ہوا-
بچوں کے خصوصی معالج نے حسین ملک کو دیکھتے ہی فوراً فوٹوتھراپی کےلیے شیشے میں منتقلکر دیا اور ہمیں بتایا کہ آپ کا بچّہ پیدائشی یرقان کا شکار ہے- بروقت علاج نہ ہونے کے سبب دماغکو نقصان ہوا ہے- اس وقت وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے- اگر بچ بھی گیا تو عمر بھرکےلیے اپاہج ہو گا-
یہ خبر ہمارے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھی ، کیونکہ اس سے پہلے بھی ہم ایک خصوصی بچّےکو سنبھال رہے تھے- بہرحال ہم نے امید قائم رکھّی اور انتظار کرتے رہے کہ شاید یہ بات غلط نکلے- ڈاکٹر خدا تھوڑی ہوتا ہے-
ایک ہفتے میں ہی حسین ملک بھلا چنگا ہو کر گھر واپس آ گیا- وہ جی بھرکے دودھ پیتا، میٹھینیند سوتا ، شب کو بستر گیلا کرتا- اور نومولود بھلا کر ہی کیا کر سکتا ہے؟
حسین تین ماہ کا ہوا تو ڈاکٹر کے مشورے پہ ہم نے اس کا سماعت کا ٹیسٹ کرایا- رپورٹ آئی توسماعت بہت کم تھی- کلینک والوں نے ہمیں آلہِ سماعت لگانے کا مشورہ دیا ہم نے ایک آلہ خرید کراسے لگا دیا اور مطمئن ہو گئے کہ بچّہ کسی دیگر مسئلے کا شکار نہیں-
یہ بات تو 6 ماہ بعد جا کر معلوم ہوئی کہ پیدائشی یرقان کی وجہ سے حسین ایتھوٹائیڈ سیریبرلپالسی کا شکار ہو چکا ہے اور عمر بھر اپنی مرضی سے کوئی حرکت نہیں کر سکتا-
دراصل ہمارے جسم میں خون کے جسیموں کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے- اس ٹوٹپھوٹ کے نتیجے میں ایک مادہ برولوبین پیدا ہوتا ہے جو جگر سے فلٹر ہو کر پیشاب کے رستے خارجہوتا رہتا ہے-
یرقان کے مریض کے خون میں برولوبین کی مقدار ایک خاص حد سے بڑھ جاتی ہے- نومولود کےلیےیہ مقدار زہر قاتل ہے کیوں کہ بلوروبین بھرا خون اس کے دماغ کے نازک حصّے باسل گانگلیا کوبرباد کر دیتا ہے- اس کا نتیجہ "اپنی مرضی سے حرکت کرنے" جیسی عظیم نعمت سے ہمیشہ کیمحرومی ہے-
حسین ملک نے 10 سال 6 ماہ ہمارے ساتھ گزارے اور 2019 میں جہان فانی سے کوچ کر گیا- CP بچّے پاکستان میں تقریباً اتنا ہی جیتے ہیں- شاید وہ احتجاجاً فوت ہو جاتے ہیں کیونکہ معذور بچّےہمارے ہاں یا تو " والدین کے گناہوں کی سزا" سمجھے جاتے ہیں یا انہیں "جنّات" کا کیس قرار دےکر کسی پیر فقیر عامل کے سپرد کیا جاتا ہے-
دراصل ہم ان کی وہ نگہداشت کر ہی نہیں سکتے جو ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے-امریکہ اوریورپی ممالک میں CP بچّے کا عمر بھر کا خرچ وہ ہسپتال برداشت کرتا ہے جہاں اسکی پیدائشہوتی ہے، کیونکہ وہ لوگ اسے ہسپتال کی غفلت شمار کرتے ہیں- یرقان کے حامل بچّے کو پیدائش کےفوراً بعد فوٹوتھراپی درکار ہوتی ہے اور بعد صورتوں میں خون کی فوری تبدیلی بھی- ہمارے ہاں یہبات والدین جانتے ہیں نہ ہی ہسپتال والے-
زندگی کے 10 سال حسین ملک اور اس کی ماں نے جس کرب سے گزارے اس کا ادراک وہی کرسکتے ہیں جو اس وقت کسی سی پی بچّے کو سنبھال رہے ہیں- اللّه تعالی ہماری غفلتوں کو معافکرے اور اس تکلیف کا آخرت میں بہترین بدلہ عطا کرے امین !!
یہ معلومات حسین ملک مرحوم کے والدین کی طرف سے وقتاّ فوقتاً آپ کی خدمت میں پیش کی جاتیہیں تاکہ آپ پیدائشی یرقان کو "میڈیکل ایمرجنسی" سمجھیں اور جس کرب سے ہم گزرے آپ نہگزریں-
اللّه تعالی آپ سب کے بچوں کو سلامت رکھے، اور آنکھوں کا نور بنائے رکھّے- امین !!
Zafar Iqbal Muhammad
Sanaullah Khan Ahsan
#sanaullahkhanahsan
#ثنااللہ_خان_احسن

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں