وہابی( مولوی) کٹ شلوار
یہ سن 94 کی بات ہے کہ جب میں نے انٹر کے امتحانات کے بعد خواتین کے ایک فیشن میگزین میںبطور ٹرینی اپنی پہلی جاب کے دوران ایک خاتون کو آف وائٹ ڈبل جارجٹ کی ٹخنوں سے کافیاونچی رانوں پر چُست چھوٹی سی فٹنگ والی شلوار اور اوپر تک کھلے چاکس والی زرد شرٹ میںملبوس دیکھا۔ وہ ہمارے آفس میں ہماری ایڈیٹر سے ملاقات کے لئے آئ تھیں۔ پہلے مجھے ان کودیکھ کر ایسا لگا کہ شاید یہ اپنے سے چھ سال چھوٹی بہن کی شلوار پہن آئی ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہدیگر خواتین کو بھی اس انداز کی شلوار پہنے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ نیا فیشن ہے۔
چہرے کو نئے ڈھب سے سجاتے ہیں وہ ہر روز
بنتے ہیں مری موت کے آلات مسلسل
شلوار ہمیشہ سے پاکستانی خواتین کا مقبول پہناوا رہا ہے۔ البتہ شلوار کے انداز بدلتے فیشن کےساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے دیسی فیشن ہمیشہ مغربی فیشن سے متاثر ہو کر نت نئے اندازاختیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 60s میں مغرب میں انتہائ چست پینٹ اور ٹراؤزرز کے ساتھ فٹنگوالی شرٹس کا فیشن آیا تو ہمارے یہاں خواتین کے شلوار قمیض نے بھی ٹیڈی صورت اختیار کرلی۔تنگ پائنچوں کی شلوار اور انتہائ فٹنگ والی لمبی شرٹ جس سے جسمانی خطوط واضح ہوتے تھے۔70 کی دھائ میں جب مغرب میں بیل باٹم کا فیشن آیا تو ہماری خواتین کی شلواروں کے پائنچے بیلباٹم انداز میں بڑے اور کھلے کھلے ہوگئے جبکہ شرٹس کی لمبائ کم ہو کر کولہوں سے زرا نیچے تکرہ گئ۔ یہ بیل باٹم فیشن 80 کی دھائ کے شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا۔ ایک بار پھر چھوٹے پائنچوںکی شلوار اور لمبے ڈھیلے ڈھالے قمیض آگئے۔ 80 کی دہائی میں پنجاب کی روایتی شلوار نے نئےانداز اختیار کیے اور یہ دھوتی، کاؤل، ترک اور پٹیالہ شلوار کی شکل میں سامنے آئی۔ اس دہائیمیں فیشن کے لیے معاشرے کی اعلیٰ طبقے کی خواتین کے بجائے سپرماڈلز کی طرف دیکھا جانےلگا کیونکہ ضیاالحق کی شھادت کے بعد میڈیا پر عائد پابندیاں ختم ہوگئ تھیں اور فیشن ڈیزائنرزاور ماڈلز جوق در جوق اس میدان کا رُخ کررہے تھے۔ جن میں عطیہ خان، نیشمیا، فریحہ الطاف،بی بی، عالیہ زیدی، لولو، اور زوئیلا وہ نام ہیں جنھوں نے پاکستان میں فیشن ماڈلنگ کا آغاز کیا۔
1990 کی دہائی کا آغاز پاکستان کی فیشن انڈسٹری اور ان فیشن ڈیزائنر کے نام ہے۔ ان ڈیزائنرزمیں ماہین خان، رضوان بیگ، نیلوفر شاہد، شمائل، ثنا سفیناز، امیر عدنان اور دیگر شامل ہیںجنھوں نے پاکستان کے فن، ثقافت، اور ہنر کو پھر سے زندہ کرنے کی بنیاد رکھی اور پاکستانیفیشن میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ملبوسات میں مغربی طرز واپس آنا شروع ہوگیا اور اس کےساتھ ہی ڈیزائنروں کی ایک نئی کھیپ سامنےآئی جن میں ایمان احمد (باڈی فوکس میوزیم)، دیپکپروانی اور سونیا باٹلہ شامل ہیں۔
ایک بات قابل غور ہے کہ 90 کی دھائ میں پاکستان میں روایتی شلوار کے ساتھ ساتھ مغربی لباسبھی رواج پاتے گئے جن میں ٹراؤزرز، سگریٹ پینٹس، کپریز، ٹیولپس بھی خواتین میں عام ہوگئے۔ 90 کی دھائ میں پاکستانی خواتین کی شلوار مغربی کپریز کے زیر اثر مختصر ہوکر ٹخنوں سے اوپرچلی گئ۔ ساتھ ہی اس کا گھیر ختم کرکے اس کو ٹراؤزر کی طرح فٹنگ والا بنادیا گیا۔ یہ فیشنخواتین میں بے حد مقبول ہوا۔ 93 میں پی ٹی وی سے ڈرامہ سیریل آنچ شروع ہوا جس میں شگفتہاعجاز اور شفیع محمد شاہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ ڈرامہ خواتین میں بے انتہا مقبول ہوا۔اس ڈرامے کی ابتدائ اقساط میں تو شگفتہ اعجاز نے نارمل انداز کے شلوار قمیض زیب تن کئےلیکن ڈرامے کی آخری چند اقساط میں ان کا لباس اچانک تبدیل ہوگیا اور انہوں نے ٹخنوں سےاونچی تنگ چھوٹی شلوار اور بڑے چاکس والی شرٹس کا استعمال شروع کیا۔ ڈرامہ سیریل آنچ میںشگفتہ اعجاز کے اس انداز نے گویا اس فیشن کو پاکستانی خواتین میں جنگل کی آگ کی طرحپھیلا دیا۔
اچھا ایک مزے کی بات یہ کہ مردوں میں بھی ٹخنوں سے اونچے ٹراوزرز اور چینوز کا رواج چل پڑا۔وہ نوجوان جو مولویوں کی ٹخنوں سے اونچی شلوار دیکھ کر مزاق اڑاتے تھے آج بڑے شوق سےٹخنوں سے اونچی پینٹس اور چینوز فیشن کے نام پر پہنتے ہیں۔
نہ جانے کس ستمگر نے اس انداز کی شلوار کا نام وہابی کٹ شلوار رکھ دیا۔ جو خواتین اپنیشلواروں اور پاجاموں کو کٹ ٹخنوں سے اوپر رکھواتی ہیں۔۔ وہ درزی کو کہا کرتی ہیں کہ ’’ وہابیکٹ رکھنا ‘‘۔ کہیں یہ مولوی کٹ شلوار کہلائ۔
اب ستم یہ ہوا کہ عام طور پر ٹراؤزر یا کپریز وغیرہ کا کپڑا دبیز ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر پینٹسکے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ظالموں نے لان اور ململ جیسے کپڑے کی کپریز نما شلواریں بناناشروع کردیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جو شلوار ٹخنوں سے زرا اوپر تھی وہ اونچی ہوتے ہوتے آدھیپنڈلی تک پہنچ گئ۔
ہم نے تو کوئی چیز بھی ایجاد نہیں کی
آتے ہیں نظر ان کے کمالات مسلسل
ہر روز وہ ملتے ہیں نئے روپ میں مجھ کو
پڑتے ہیں مری صحت پر اثرات مسلسل
اس طرح وہابی یا مولوی کٹ شلوار مسلمان مرد تو نہ پہن سکے لیکن مسلمان خواتین نے خوب رواجڈالا اور آج تقریبا” 28 برس گزرنے کے باوجود یہ وہابی کٹ شلوار پاجامے خواتین میں مقبول ہیں۔
اور کیوں نہ ہو کہ کہیں ایک شعر پڑھا تھا
ٹخنے کا دیدار کرا
لہنگا ذرا وھابی کر
|تحریر✍🏻|
Sanaullah Khan Ahsan
#sanaullahkhanahsan
#ثنااللہ_خان_احسن
#wahabicutshalwar
#وہابی_کٹ_شلوار
22/09/2022





کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں