تبت سنو: ماں کی خوشبو والی کریم
Tibet Snow
شام چار پانچ بجے کا وقت ہے۔ شدید گرمیوں کیدوپہر میں قیلولہ کرنے کے بعد سب گھر والے اُٹھےہیں۔ جگ میں رُوح افزا گھولا جارہا ہے جس کی مہکپورے گھر میں پھیل گئ ہے۔ ایک چھ سات سال کالڑکا نیند سے اُٹھ کر منہ دھو کر اپنی والدہ کے پاسآتا ہے۔ والدہ اس کے چہرے اور گردن پر فیروزی رنگکے مخصوص ساخت کے ڈبے سے تھوڑا سا تبتٹیلکم پاؤڈر لگاتی ہیں جس کی بھینی بھینیخوشبو سے گرمی اور پسینے کا احساس کم ہوتاہے۔ پھر والدہ اس کی ٹھوڑی پکڑ کر آڑی مانگ نکالکر بال سنوارتی ہیں۔ جس کے بعد یہ بچہ برف سےٹھنڈا ٹھار روح افزا پی کر باہر صحن میں کھیلنےچلا جاتا ہے۔ دھوپ ڈھل چکی ہے اور اب صرفدیواروں کے بالائ حصوں پر نظر آرہی ہے۔ سُرمئآسمان بالکل صاف، ساکت سا ہے جس پر ایک عجیبسی خاموشی اور ویرانی سی چھائ ہے جو دل پرایک عجیب سی سوگواری اور بھاری پن طاریکردیتی ہے۔ صحن میں تازہ چھڑکاؤ کیا گیا ہے۔ لالاینٹوں پر پڑنے والے پانی سے مٹی کی سوندھیخوشبو اٹھ رہی ہے۔ پچھلی گلی میں واقع مسجدسے اذان عصر کی آواز آرہی ہے۔ تبت کی خوشبومہک رہی ہے۔ زندگی بیت گئ برسوں گزر گئے، پیارےبچھڑ گئے لیکن آج بھی تبت کی خوشبو اردگرد وہیماحول طاری کردیتی ہے اور میں کنگھا ھاتھ میںلئے اس ماں کا انتظار کرنے لگتا ہوں جو میریٹھوڑی پکڑ کر میرے سلیقے سے آڑی مانگ نکال کرمیرے بال سنوارے اور گردن اور چہرے پر تبت پاؤڈرلگائے۔
![]() |
| سن ساٹھ کی دہائ کا اشتہار |
گزشتہ 65 سال سے مشہور و مقبول ایشیا کی بیوٹی کریم تبت سنو کو ہم بچپن سے ہی اپنے گھرمیں دیکھتے چلے آرہے تھے- تبت ٹیلکم پاوڈر بھی آتا تھا- بلکہ وہ چار پانچ چیزیں جو ہمیشہ والدہکی سنگھار میز پر موجود ہوا کرتی تھیں ان میں تبت سنو، تبت ٹیلکم پاؤڈر، عمر رواں سینٹ، ایوننگان پیرس کی گہری نیلی شیشی، ھاشمی سرمہ، کلیوپیٹرا کاجل، اور ایک کریم کلر کا ٹن کا گولڈبے والا پف پاؤڈر جس میں چھوٹا سا گول نرم کشن نما پف بھی موجود ہوا کرتا تھا۔
اس زمانے میں اگر کوئ مہمان بغیر پیشگی اطلاع کے گھر آجاتے تو فوری جمالیاتی امداد کے طورپر بالوں میں کنگھا اور چہرے پر تبت کریم کا استعمال شافی و کافی سمجھا جاتا تھا۔ اگر کسیتقریب میں جانا ہوتا تو اس زمانے کی سیدھی سادی خواتین چہرہ صابن سے دھو کر بالوں میںکنگھا کرتیں، چہرے پر تبت کریم، آنکھوں میں کاجل اور اگر بہت زیادہ ماڈرن ہوئیں تو لپ اسٹک اورھلکا سا غاذہ ( بلش آن) لگا کر سر پر دوپٹہ اوڑھ کر بُرقعہ پہن کر چلنے کو تیار ہوجایا کرتی تھیں۔
تبت والوں کا ایک بُوکے ٹوائلٹ پاؤڈر بھی آتا تھا۔ گول ڈبے کے اندر خوشبودار پاؤڈر کے اوپر ایکگول چھوٹی سی گدی جیسا نرم پف ہوا کرتا تھا۔ یہ عام طور پر گردن پر پاؤڈر لگانے کے لئےاستعمال ہوتا تھا۔ یہ پف پاؤڈر آپ کو حجام کی دکان پر لازمی ملتا تھا۔ جب حجام آپ کا بال کاٹکر فارغ ہوجاتا تو وہ آپ کی گردن سے بندھا ہوا کپڑا کھول کر برش سے آپ کی شرٹ، گردن اورکالر وغیرہ سے بال صاف کرتا۔ اس کے بعد اس پف پاؤڈر کے ڈبے سے پف نکال کر آپ کی گردن پرپاؤڈر لگاتا اور شرٹ کے موڑے ہوئے کالر سیدھے کردیتا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوتا تھا کہ اب آپحجام کی کرسی سے نیچے اتر جائیں آپ کی حجامت کا کام مکمل ہو چکا ہے۔
جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو ہماری امی جان شام کے وقت ہمارا منہ ہاتھ دھلوا کر ہمار بال کنگھےسے بناتیں- آڑی مانگ نکال کر بال جماتیں اور پھر چہرے اور گردن پر زرا سا تبت پاوڈر مل دیتیں- لیجئے جی ہم تیار ہوجاتے-آج بھی جب کوئ تبت کریم لگاتا ہے تو میرے اطراف سے تمام گردوپیشغائب ہو جاتا ہے اور وقت بعد عصر ایک چھ سال کا بچہ رکسونا صابن سے ہاتھ منہ دھونے کےبعد اپنی والدہ کے سامنے کھڑا بال بنوارہا ہے۔ والدہ کی انگلیوں کا لمس ٹھوڑی پر کہ جس کو تھامکر وہ مانگ نکال کر بال بنایا کرتی تھیں۔ تبت کریم لگانا مجھے کبھی بھی پسند نہیں تھا کیونکہاس کو لگانے کے بعد چہرے پر پسینہ آتا محسوس ہوتا تھا- البتہ جب بھی گھر میں تبت سنو کی نئشیشی آتی تو ہم اس کے پیکٹ کے اندر موجود اس کے تعارفی لٹریچر والے پیپر کو ضرور بہتدلچسپی سے پڑھتے تھے- یہ تعارفی لٹریچر بیک وقت اردو، انگلش، ہندی، بنگالی زبان میں ہوتا تھاجس میں تبت کریم کے فوائد و خصوصیات درج ہوتی تھیں- آج بھی یہ پرچہ اسی طرح تبت کریمکے پیکٹ کے اندر موجود ہوتا ہے۔
اس پرچے کی سب سے پہلی عبارت یہ بتاتی تھی کہ آپ خواہ کتنا ہی رف اور سخت کام کرتے ہوںتبت کریم آپ کے ھاتھوں کو نرم ملائم اور مخملی رکھتی ہے۔
دوسری خاصیت یہ بیان کی جاتی تھی کہ شیو کرنے کے بعد تبت کریم آپ کی جلد کو جلن اور زخمسے محفوظ رکھتی ہے اور جلد کو نرم ملائم بناتی ہے۔لہٰذہ مرد حضرات شیونگ کے بعد تبت کریم کااستعمال باقاعدگی سے کریں۔
تیسری خاصیت یہ بیان کی جاتی تھی کہ اگر کالج جانے والی لڑکیاں تبت کریم کا استعمال کریںتو ان کا چہرہ گردوغبار اور دھوپ سے محفوظ رہے گا۔اور یہ حقیقت ہے کہ اس زمانے کی ٹیڈیکالج گرلز تبت سنو پسند کرتی تھیں۔
چوتھی خاصیت یہ کہ تبت کریم بغلوں کی ناگوار بو دور کرتی ہے اور آپ کی بغلیں گلاب سیمہکتی رہتی ہیں۔
پانچویں خاصیت یہ کہ اسپورٹس مین ہمیشہ کھیل پر جانے سے پہلے اور بعد لازمی تبت سنواستعمال کرتے ہیں کیونکہ کھیل کے دوران تبت سنو ان کے چہرے کو گردوغبار سے پاک رکھتی ہےاور کھیل کے بعد لگانے سے یہ گردو غبار کے انتہائ باریک ذرات کو چہرے کی جلد سے کھینچنکالتی ہے۔
چھٹی خاصیت یہ بتائ جاتی تھی کہ لمبی چہل قدمی یا واک کے بعد ہمیشہ اپنے پاؤں پر تبت کریمکا مساج کیجئے کیونکہ یہ پاؤں کی جلد نرم و ملائم رکھتی ہے اور سیاہ سخت جلد ( Corns) نہیںبننے دیتی۔
اب بتائیے کہ کیا آپ کو کوئ اتنی ملٹی پرپز کریم مل سکتی ہے؟
تبت کریم گزشتہ 65 سال سے شدید ترین مسابقت اور نیشنل و انٹرنیشنل برانڈز کے مقابلے میں اپنامقام قائم رکھنے میں کامیاب ہے۔ انتہائ دلچسپ اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ تبت نے آج تک اپنےنام کے ساتھ “ نیو” کا سابقہ نہیں لگایا۔ نہ ہی اس کی پیکنگ اور شیشی تبدیل ہوئ اور نہ ہی اسکی خوشبو و معیار میں کوئ تبدیلی آئ۔ اس کے پیکٹ کے سامنے کے رخ پر بنی سجی سنوریسیاہ بالوں کاپف بنائے خاتون کا سائڈ پوز اور بیک پر تبت کے پہاڑ اور درختوں کی ڈرائنگ بنیہوتی ہے۔ اس کا شیشے کا جار اور ایلمونیم کا نقرئ ایمبوزڈ کیپ سب کچھ پہلے دن جیسا ہے۔ اور آج بھی تبت کریم کی خوشبو نہ جانے کتنی یادوں کے دروازے کھول دیتی ہے جن میں ماں کا لمساور خوشبو اولین احساس ہوتا ہے۔ بلکہ آجکل کے نوجوانوں کی تو نانی دادی کی کریم ہے۔ تبت کریمکی خوشبو گلاب اور کیوڑے کے مکسچر جیسی ہوتی ہے۔ اس کے چمکدار سفید رنگ جیسے کہموتی پیس کر ملائے گئے ہوں کی وجہ سے اس کو سنو کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی بالکل صاف پاکیزہاور خالص جیسی کے تبت کے پہاڑوں پر پڑنے والی روئ کے نرم گالوں جیسی برف۔
تبت سنو کی کیمسٹری:
اس میں شامل سوڈیم بوریٹ جلد میں ھلکا سا نکھار پیدا کرتا ہے اور اس میں شامل بورون جلد کیسطح پر موجود خون کی باریک نالیوں کو سکیڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے جلد میں کھنچاؤ اور تناؤمحسوس ہوتا ہے۔چھوٹا موٹا کٹ لگ جانے پر بھی تبت کریم فوری خون کا بہاؤ روک دیتی ہے۔ یہیوجہ ہے کہ اکثر خواتین اس کو اپنی آنکھوں کے نیچے پھولے ہوہے حلقوں کو چھپانے کے لئےاستعمال کرتی تھیں۔ اس میں شامل پوٹاشیم کے مرکبات جلد کی سطح چکنی اور ہموار ہونے کاتاثر دیتے ہیں۔ یہ مردوں کے لئے ایک بہترین آفٹر شیو کے لئے بھی تجویز کی جاتی تھی۔ تھکےماندے چہرے کو فوری طور پر تازگی بھرا تاثر دینے کے لئے تبت کریم لگائیے اور فرق محسوسکیجئے۔ تبت کریم ایک بہترین سن سکرین کا کام بھی کرتی ہے۔ تبت کریم کی ایک بہت خاص باتیہ ہے کہ یہ سیاہ کہنیوں، گھٹنوں اور ٹخنوں پر پابندی سے لگائ جائے تو ان کی سیاہی ختمکردیتی ہے۔یعنی ہر وہ جگہ جہاں جلد سخت سیاہ اور کھردری ہوجائے وہاں تبت کریم بہترین کامکرتی ہے۔
کوہ نور کیمیکل کمپنی:
تبت کریم غالبا” پاکستان کی پہلی کاسمیٹکس کمپنی کوہ نور کیمیکلز نے بنانا شروع کی تھی- کوہنور کیمیکل کمپنی موجودہ بنگلہ دیش اور سابقہ مشرقی پاکستان میں قائم ہوئ۔ سقوط ڈھاکہ تکیہ کمپنی مشرقی پاکستان میں ہی قائم تھی لیکن 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس کےمالکان پاکستان آگئے اور کوہ نور کیمیکل کمپنی پرائیویٹ لمیٹیڈ کی بنیاد رکھ کر اس کر اس کیمصنوعات بنانا شروع کردیں جن میں تبت کی مکمل رینج بھی شامل تھی جس میں تبت ٹیلکم پاؤڈر،تبت کریم، تبت ٹوتھ پیسٹ، تبت پومیڈ ،تبت کولڈ کریم اور تبت ٹائلٹ سوپ شامل ہے۔ بنگلہ دیش میںقائم کوہ نور کیمیکل کمپنی پہلے قومیا لی گئ تھی لیکن بعد میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحتاب بھی قائم و دائم ہے اور وہاں بھی اس کی مقبولیت میں کوئ کمی نہیں آئی ہے۔
![]() |
| تبت سینٹر ایم اے جناح روڈ کراچی |
تبت کریم کے سب سے پہلے اشتہار میں اداکارہ صبیحہ خانم اس کی برانڈ ایمبیسیڈر تھیں جو50s میں پاکستان سلور اسکرین کی ٹاپ ھیروئن تھیں۔ اس کے بعد بھی تبت نے مختلف فلمیھیروئنز کو اپنے اشتہارات میں لینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 70’s کے کراچی کی سڑکوں پر جو اکادکا نئون سائنز نظر آتے تھے ان میں تبت کی پروڈکٹس، روح افزا, الہ دین سیل , حبیب بینک کا گولروپئے والا نیون سائن ، رینا ٹیلیویژن، لکس سوپ. باٹا اور سروس شوز، پاکولا، شیزان مینگو جوس،احمد سوئٹس اور چندا بیٹری سیل نمایاں مقام رکھتے تھے۔ اس وقت غالبا” کراچی پاکستان کاواحد شہر تھا جہاں سر شام معروف و مصروف شاہراہوں کی اونچی عمارات پر نصب یہ دیو ھیکلنیون سائن جلنا بجھنا شروع کردیتے تھے جن کو گاؤں دیہات سے آئے لوگ بڑے شوق اور تعجب سےدیکھا کرتے تھے اور انہی رنگ برنگے جلتے بجھتے نیون سائنز کی وجہ سے کراچی کو روشنیوں کاشہر کہا جاتا تھا ۔ اندرون سندھ پنجاب وغیرہ سے لوگ کراچی کی بتیاں دیکھنے آیا کرتے تھے۔ ہرسگنل اور چورنگی کے اطراف یہ نیون سائنز چاروں طرف جگمگاتے ہوتے تھے اور کراچی سے باہرسے آئے لوگ بسوں رکشوں اور ٹیکسیوں میں بیٹھے سگنل سرخ ہونے پر اپنے چاروں طرف موجود یہجلتے بجھتے نیون سائنز آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا کرتے تھے۔
کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر قائم تبت سینٹر کوہ نور کیمیکلز کا ھیڈ آفس ہے۔ ایٹکو لیبارٹریز ( Atco Laboratories) نامی فارماسیوٹیکل کمپنی بھی اسی ادارے کی ملکیت ہے۔
![]() |
| ماضی کی اداکارہ شمیم آرا |
کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر قائم تبت سینٹر کوہ نور کیمیکلز کا ھیڈ آفس ہے۔ ایٹکو لیبارٹریز ( Atco Laboratories) نامی فارماسیوٹیکل کمپنی بھی اسی ادارے کی ملکیت ہے۔
تبت کریم کا پیکٹ:
تبت کریم کے پیکٹ کا ڈیزائن مولانا نور حسین نے ڈیزائن کیا تھا۔ انہی مولانا
روح افزاء،، کا پھلوں بھرا لیبل بھی ڈیزائن کیا تھا۔ ان کے یہ دونوں ڈیزائین اس قدر با برکت ثابتہوئے کہ آج پون صدی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود دنیا بھر میں یہ دونوں ڈیزائین اپنی پوری آبو تاب سے مقبول ہیں ، کہیں بھی چلے جائیں ، روح افزا اور تبت سنو ضرور ملیں گے ، شاید اسیکو برکت کہتے ہیں۔ مولانا نور حسین ، کا پورا نام مولانا مرزا نور حسین تھا ، کمپیوٹر میں جو اردورسم الخط ھے وہ بھی مولانا مرزا نور حسین کے نام سے منسوب ھے ، جسے خط نوری نستعلیق کہاجاتا ھے ، اردو زبان کو وسعت نوری نستعلیق سے ملی ھے جب سے اردو کمپیو ٹرائیز ہوئی ھے پوریدنیا میں پہنچ گئی ھے وگرنہ کاتب اپنے گھٹنوں پر رکھ کے لکھا کرتے تھے ، نوری نستعلیق کوکمپیوٹر میں احمد جمیل مرزا نے ڈالا تھا جو مرزا نور حسین کے بڑے فرزند تھے اور 95 برس کیعمر میں چار سال پیشتر فوت ہوئے ، کراچی نرسری میں مقیم تھے ان کا پبلیکیشنز ھاؤس ملک میں الیٹ کے نام سے جانا جاتا ھے ، مولانا مرزا نور حسین کے چھوٹے فرزند مرزا منظور حسین تھے جوپاکستان کے صف اول کے مصور ہو گزرے ہیں ان کی بنائی ہوئی قائد اعظم کی تصویر سرکاریطور سے تسلیم کی گئی ھے اور وہی سرکاری دفاتر ،
قومی اسمبلی ،سینٹ اور ایوان صدر میںآویزاں ہے۔
تبت کریم کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دور دراز کے چھوٹے سے چھوٹےگاؤں دیہات کے پرچون شاپ پر بھی آپ کو یہ کریم ضرور مل جائے گی۔ شاید اسی لئے تبت کوایشیا کی بیوٹی کریم کہا جاتا ہے. تبت کریم انڈیا پاکستان اور بنگلہ دیش میں یکساں مقبول ہے۔تبت والے اب کچھ عرصہ سے رنگ گورا کرنے والی کریموں سے مقابلے کے لئے تبت اسکن وائٹننگکریم بھی مارکیٹ میں لانچ کرچکے ہیں لیکن تبت کریم جیسی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔ آج بھیرنگ گورا کرنے کے بے شمار فارمولا کریمز کا بنیادی جزو تبت کریم ہی ہوتی ہے۔
آئیے آج لگے ھاتھوں ہم بھی آپ کو ایک اسکن وائٹننگ فارمولا بتا دیتے ہیں۔ اس کے لئے آپ کو تیناجزا کی ضرورت ہوگی۔
1- ایک بڑا چمچ تبت کریم
2-آدھا چمچ ایلو ویرا جیل کوئ بھی برانڈ لیکن گاڑھا ہونا چاہئے
3- دو عدد اسکن وائٹننگ کیپسول
یہ دراصل وٹامن ای کے کیپسول ہوتے ہیں جو جلد پر لگانے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور ہر میڈیکلاسٹور پر فیشل وائٹننگ کیپسول کے نام سے ملتے ہیں۔ ان کے اندر موجود تیل نما وٹامن ای کیپسولتوڑ کر نکالا جاتا ہے۔
ان تینوں چیزوں کو بہت اچھی طرح مکس کرلیجئے۔ اور کسی شیشے یا پلاسٹک کے جار میںریفریجریٹر میں محفوظ رکھئے۔ یا آپ تبت کریم کی جار میں موجود کل مقدار سے آدھا ایلو ویراجیل اور چھ یا آٹھ فیشل وائٹننگ کیپسول بھی اچھی طرح مکس کرکے محفوظ کرسکتے ہیں۔
یہ کریم آپ کو رات سوتے وقت چہرے پر لگانی ہے اورصبح صابن یا فیس واش سے دھولینا ہے۔ ایکہی ھفتے میں آپ اپنی رنگت اور جلد کی نرمی و خوبصورتی میں واضح فرق پائیں گے۔ اس کریممیں کچھ دیگر جڑی بوٹیوں کا پاؤڈر اور تیل ملا کر آپ کوریا کی مشہور عالم سِیکا
( Cica cream ) جیسی کریم بھی بنا سکتے ہیں جو چہرے کو گورا بے داغ اور داغ دھبوں اورجھریوں سے پاک کرنے کے لئے عالمگیر شہرت و مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔
یہاں ایک عرض کرتا چلوں کہ آجکل خاص طور پر پنجاب میں جعلی تبت کریم کی بھرمار ہے۔ لاہورکا شاہ عالمی جعلی تبت کریم سے بھرا پڑا ہے جہاں سے بھاری مقدار میں جعلی اور مضر تبتکریم سپلائ کی جاتی ہے۔ اصلی اور نقلی تبت کریم میں فرق جاننے کے لئے یہ وڈیو دیکھئے۔












کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں