آپریشن تھیٹر کو “تھیٹر کیوں کہا جاتا ہے؟
اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے اپنی ایک تحریر جس کا عنوان “ منا بھائ ایم بی بی ایس” تھا میںاپنے انٹر کے زمانہ طالبعلمی کا ایک واقعہ تحریر کیا تھا جس میں میڈیکل کالج کے ڈائسیکشن ھالکا ذکر کیا تھا جہاں طلبا مردہ جسموں کی چیر پھاڑ کرتے ہیں اور وہاں کا نظارہ دیکھ کر میرا جوحال ہوا تھا۔ میری یہ تحریر امت اخبار میں بھی چھپی تھی۔ وہاں اسی دن میں نے سول ھاسپٹلکراچی کے دو آپریشن تھیٹرز میں آپریشن ہوتے ہوئے بھی دیکھے تھے۔ آپریشن روم کے اوپر ایککمرہ تھا جس میں ایک موٹے شفاف شیشے کے پیچھے سے آپ لائیو آپریشن دیکھ سکتے تھے۔میرے سامنے ایک چودہ پندرہ برس کی لڑکی کے کان کا آپریشن ہورہا تھا۔ لڑکی کا پورا جسمبشمول چہرہ سفید کپڑے سے چھپا ہوا تھا۔ صرف اس کا کان والا حصہ چادر سے باہر نکلا ہواتھا۔ سرجن نے ایک نشتر سے کان کے زرا نیچے سے کان کی لو تک چیرا لگایا اور اس چیرے کومزید کھول کر کلپس کی مدد سے چوڑا کردیا گیا۔ اس کے بعد سرجن نے کچھ دوسرے آلات کی مددسے کان کے اندر مزید کچھ چھیڑا چھاڑی شروع کردی۔
دوسرے آپریشن تھیٹر میں ایک مریض کا پیٹ کا آپریشن ہورہا تھا۔ مریض بیہوش سیدھا سیدھاکسی میت کی طرح سفید چادر سے ڈھکا ہوا آپریشن ٹیبل پر پڑا تھا۔ اس کے گرد سرجن، نرسز اوردوسرا طبی عملہ سفید اوورآل پہنے اور ماسک لگائے موت کے فرشتوں کی طرح کھڑا تھا۔ مریض کاصرف پیٹ والا حصہ پسلیوں کے نیچے سے ناف تک کھلا ہوا تھا۔ سرجن نے مریض کے پیٹ پرسیاہ مارکر سے بنی ایک سیدھی لائن پر بڑے مشاقی سے نشتر چلایا اور کھینچتا ہوا نیچے لےگیا۔ یہ سیاہ نشان فورا” ہی ایک باریک سرخ لکیر میں تبدیل ہوگیا جس کو پاس کھڑی نرس نےفورا” کاٹن سویب سے خون صاف کردیا۔ اس کے بعد اس چھ انچ کے چیرے کو کلپس کی مدد سےکھول کر کشادہ کردیا گیا۔ اندر مریض کی آنتوں کے گچھے اور کلیجی جیسا جگر بڑے سلیقے سےفٹ نظر آرہا تھا۔ سرجن نے ایک ھُک جیسا آلہ اندر ڈال کر آنت کا ایک حصہ باہر کھینچ نکالا،شاید یہ اپنڈکس کی سرجری تھی۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ سرجن ہونا اور سرجری کرنا کوئمزاق نہیں ہوتا بلکہ سرجن اپنے شعبے میں انتہائ مشاق، ایکسپرٹ اور تجربہ کار ہوتا ہے جس کوجسم کے ایک ایک عضو کی بالکل درست پوزیشن کا بالکل صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ سرجن کےھاتھوں کی لچک اور ایک خاص ردھم والے انداز میں سرجری کے آلات کو استعمال کرکے برابر والینرس کو تھمانا اور نرس کا بالکل اسی ردھم اور پھرتی کے ساتھ دوسرا مطلوبہ آلہ سرجن کوپکڑانا۔ بالکل ایسا لگتا ہے جیسے کہ سرجری کرنے والا تمام عملہ آپس میں سنکرونائزڈ یعنی ہمآھنگ ہوچکا ہے۔ سرجن کے سامنے ایسے ہی زندہ آدمی پریکٹس کرنے کے لئے نہیں چھوڑ دیا جاتا۔
میرے ساتھ چند دوسرے لوگ بھی شیشے کے پیچھے سے یہ لائیو آپریشن کا نظارہ دیکھ رہے تھے۔لیکن یہ لائیو سرجری دیکھ کر مجھے کوئ خاص احساس نہیں ہوا جیسا ڈئسکشن ھال میں سیاہپڑی بدبودار مسخ شدہ لاشوں کے ساتھ طلبا کی چیر پھاڑ دیکھ کر ہوا تھا۔
مریض آپریشن روم کی ٹیبل پر بیہوش پڑا ہے۔ اس کا سینہ کھلا ہوا ہے اور اندر اس کے جسمانیاعضا نظر آرہے ہیں۔ سرجن اور نرسز سمیت طبی عملہ اس کے چاروں طرف کھڑا اپنا کام کررہاہے۔ لیکن یہ آپریشن تھیٹر کس لئے بھئ؟ جب ہم 'تھیٹر' کی اصطلاح سنتے ہیں تو زیادہ تر اسعمارت سے وابستہ ہوتا ہے جو حقیقی ڈرامہ یا ریکارڈ شدہ فلم، پلے یا اسٹنٹ شو دکھاتی ہے۔تھیٹر کا لفظ یونانی زبان کے لفظ 'تھیٹرون' (Theatron) سے آیا ہے جس کا لفظی مطلب ہے 'دیکھنےکی جگہ'۔ تو پھر اسے جراثیم سے پاک اس ٹھنڈے کمرے سے کیوں جوڑا جاتا ہے جہاں مریض اورطبی عملے کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی چہ جائکہ اس تھیٹر بولا جائے۔
یہ ہمارے جدید دور کے آپریٹنگ روم کے لیے غلط نام ہے لیکن درحقیقت صدیوں پہلے سے پچھلیصدی کے وسط تک طب کی تاریخ میں ابتدائ آپریٹنگ روم کے لیے یہی لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ہے، پہلے زمانے میں، آپریٹنگ روم میں آپریٹنگ ٹیبل کے گرد گیلریوں میں بیٹھنے کا انتظام ہوتا تھا۔میڈیکل کے طالب علم اور دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو وہاں موجود رہنے اور طریقہ کار کو دیکھنےکی اجازت ہوا کرتی تھی۔ گویا ایک تماشہ لگا دیا جاتا تھا۔ یہ گیلری تھیٹر سے مشابہت رکھتیتھی جس کا مقصد آپریشن کا مظاہرہ تھا تواس نے “آپریشن تھیٹر” کی اصطلاح کو جنم دیا۔
اس کا مقصد ڈاکٹروں کی اگلی نسل کو سرجری کے حوالے سے لائیو، عملی معلومات فراہم کرنا اوراس طریقہ کار کی اخبار میں تشہیر کرنا اور دیگر دلچسپی رکھنے والے شرکاء کو بھی بتانا ہوتاتھا۔ درحقیقت، اس کو دیکھنے کے شوقین لوگ باقاعدہ یہ آپریشن دیکھنے کے لئے رقم کی ادائیگیکرتے تھے۔ گویا مریض کے آپریشن کا ٹکٹ لگا دیا جاتا تھا۔ ان شوقین لوگوں کی تعداد (اورادائیگی بھی) اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ اکثر آپریشنز کو اس وقت تک ملتوی کرنا پڑتا تھا جب تک کہایک بڑے تھیٹر کا انتظام نہیں کیا جاتا۔
اب ظاہر ہے کہ آپریشن کے اس عوامی مظاہرے نے فائدے سے زیادہ نقصان کیا۔ آج کے آپریٹنگطریقہ کار کے برعکس، پہلے آپریشن رومز، آلات جراحی کو اچھی طرح جراثیم سے پاک نہیں کیاجاتا تھا اور ڈاکٹر بھی دستانے، ماسک یا گاؤن تبدیل کیے بغیر ایک کے بعد ایک یہ طریقہ کارانجام دیتے تھے۔ آس پاس گلریوں میں موجود تماشائیوں کو کوئ بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنےکی ھدایت نہیں کی جاتی تھی۔ اتنے لوگوں کی موجودگی میں سرجن کی توجہ کا ارتکاز بھیمریض پر نہیں رہتا ہوگا۔ تو پھر آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ مریض کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ چڑھ جابیٹا سولی پر، رام بھلی کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جراثیم اور انفیکشن کی وجہ سے، سرجری کے بعدموت کی تعداد بے انتہا بلند تھی۔
شکر ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر منفی پہلو پر توجہ دی گئی اور اسے بہتر بنایا گیا۔ موجودہ دورمیں بھی، میڈیکل طلباء ہسپتالوں میں اپنے سینئر ڈاکٹروں کے ساتھ کئی سرجری کے طریقہ کارمیں شرکت کرتے ہیں۔ تاہم، یہ خالصتاً سیکھنے کے مقصد کے لیے ہے اور وہ سب ڈاکٹر کی طرححفظان صحت اور جراثیم سے محفوظ رہنے کا طریقہ کار اپنا کر ہی اس آپریشن میں شامل ہوتےہیں۔ اس طرح اس سے مریض کی صحت اور صحت یابی کے لیے مزید کوئی خطرہ کے چانسز نہیںہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ، موجودہ دور میں سرجری کی ویڈیو ریکارڈنگ نے آپریٹنگ کمروں میںجسمانی طور پر موجود رہنے کی واحد ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔
موجودہ دور میں پرانے زمانے کے آپریشن تھیٹر میں آپریشن کروانا مریض اور ڈاکٹر دونوں کے لیےایک ڈراؤنا خواب ہو گا، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ میڈیکل سائنس آج کے اس دور جیسی ترقییافتہ اور محتاط راتوں رات تیار نہیں ہوئی بلکہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کیطرف سے بہت زیادہ کوششیں کی گئیں جس کے نتیجے میں ہم آج جدید ترین اور جراثیم سے پاکٹھنڈے اور تیز روشنی والے تمام ضروری طبی آلات سے لیس آپریشن تھیٹر دیکھتے ہیں۔
|تحریر✍🏻|
Sanaullah Khan Ahsan
#sanaullahkhanahsan
#ثنااللہ_خان_احسن
#operationtheatre
#آپریشن_تھیٹر
26 اکتوبر 2022






کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں