ماسی کلچر اور ڈاکو ماسیاں
چور ماسیاں۔ محنتی اور ایماندار ماسیاں۔ حسینہ ماسیاں۔ دل پھینک ماسیاں۔ دل چور ماسیاں۔صاحب کی لاڈلی ماسیاں۔ بیگم کی سوتن ماسیاں
*ماسی رکھنے سے پہلے کونسی احتیاطیں لازمی ہیں؟
ہماری کراچی کی ایک فیسبک فرینڈ نے پوسٹ لگائ کہ دو ماسیاں ان کے گھر سے چوری نہیں بلکہڈاکہ ڈال کر گولڈ اور نقدی لے اڑیں۔ بتاتی ہیں کہ دو ماسیاں تھیں۔ ان کو ماسیوں کی تلاش تھی۔ان کے محلے میں کام تلاش کررہی تھیں۔ انہوں نے رکھ لیا۔ بتاتی ہیں کہ ان میں سے ایک ماسی نےان سے جھاڑو لے کر جیسے ہی دیوار پر پھیری اس میں سے کوئ راکھ سی نکل کر اڑی اور یہسارے گھر والے گویا جیسے فریز ہوگئے۔ وہ ماسیاں ان کے گھر سے نقدی کے علاوہ بھاری مالیتکے طلائ زیورات بھی لے اڑیں۔ زیادہ تفصیلات انہوں نے بیان نہیں کیں مگر واقعہ اور وقوعہ یہیبیان کیا ہے۔ واللہ اعلم!
گھریلو ملازم رکھنے میں احتیاط:
سب سے پہلے ماسی ہو کہ ڈرائیوریا کسی بھی قسم کا گھریلو ملازم، اسکی تھانے سےverification ضروری ہے کتنی ہی زبانی گارنٹی دی ہو کسی نے۔ ماسیاں کم سے کم بدلیں۔ قابلِاعتبار و دیانتدار اور کم گو ہونا کہیں بہتر ہے چابک دست اور کھوٹی نیت اور لمبی زبان سے۔ماسیوں کے انتخاب میں جلدی نہ کریں ۔ ویسے اب خواتینِ خانہ بھی ماسیوں کے معاملے میں کافیماہر ہوچکی ہیں پھر بھی احتیاط لازم ہے
کام والیوں کا نام ماسی کیسے پڑا:
پرانی وضع دار اشرافیہ میں گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی گھر کی مالکن بڑی عزت کیاکرتی تھیں اور اپنے بچوں سے بھی ان کا احترام کراتی تھیں اور انہیں نام سے پکارنے کی بجائےماسی کہنے کی تلقین کرتی تھیں ماسی ماں کی بہن کو کہتے ہیں ادھیڑ عمر کی ملازمائیں ماسیکہنے پر بڑی خوش ہوا کرتی تھیں رفتہ رفتہ عزت اور احترام والا یہ لفظ گھریلو ملازماؤں کے لئےمخصوص ہی ہو کر رہ گیا اور ماں کی بہن والے تصور سے ہٹ کر نوکرانی کے روپ میں ڈھل گیا
کراچی میں برسہا برس سے گھروں میں ماسیاں کام کررہی ہیں جن میں کچھی، بلوچی، سندھی،پنجابی، اردو اسپیکنگ، بنگالی، کرسچن اور ہندو بھی شامل ہیں لیکن سب سے زیادہ بلکہ کثرتسے جنوبی پنجاب کی سرائیکی ماسیاں کام کررہی ہیں۔ عام طور پر ایماندار اور محنتی ہوتی ہیں۔لیکن جہاں اور بہت کچھ بگڑا ہے وہاں اس دھندے میں جرائم پیشہ افراد بھی آگئے ہیں۔ یہ باقاعدہگینگز کی شکل میں ہوتی ہیں۔ کراچی میں بے شمار واقعات ان کی ڈکیتیوں کے ہوچکے ہیں۔ یہیوجہ ہے کہ اب ان ماسیوں کو رکھتے وقت بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ بغیر کسی جان پہچان یاحوالے کے ہرگز نہ رکھیں۔ شناختی کارڈ کی کاپی لازمی رکھیں۔
کراچی میں عام اور مڈل کلاس سے لے کر لوئر مڈل کلاس تک ماسی کلچر 80 کی دھائ میں شروعہوا۔ اس سے پہلے کراچی کے پوش علاقوں جیسے کہ ڈیفنس، محمد علی سوسائٹی، گلشن اقبال، پیای سی ایچ سوسائٹی وغیرہ میں گھروں میں کل وقتی ملازم اور ملازمائیں رکھنے کا رواج تھا جنکو بنگلے میں رہائش بھی فراہم کی جاتی تھی۔ مڈل کلاس کے لوگوں میں بھی اکادکا ملازمہ رکھنےکا رواج تھا۔ لیکن جب ہر گلی محلے سے ایک دو حضرات عرب ریاستوں میں کمانے کے لئے گئے اورریال و درہم دینار کی برسات ہوئ تو پھر ان کی بیگمات کو گھر کا جھاڑو پوچھا اور برتن کپڑےدھونا گراں گزرنے لگا۔ ایسے میں کام والی کی تلاش شروع ہوئ لیکن یہ نئے نئے دولتمند کل وقتیملازمائیں رکھنا افورڈ نہیں کرسکتے تھے لہذہ ایسی کام والی کی تلاش شروع ہوئ جو گھر آکرجھاڑو پوچھا ڈسٹنگ اور برتن کپڑے دھو جائے۔ دوسری طرف کرپشن اور دونمبری سے پیسہ بنانےوالوں کی تعداد بھی بڑھتی گئ۔ پیسے کی ریل پیل ہوئ تو ان کی بیگمات کو بھی ماسی کیضرورت پڑ گئ۔ اس طرح دیکھا دیکھی بھیڑ چال کی طرح کراچی میں ماسی چل چل پڑی۔
دوسری طرف جنوبی پنجاب کے بڑے شہروں صادق آباد، رحیم یار خان، ملتان اور بہاولپور سے تیزرفتار روٹ ٹرانسپورٹ کوچز کراچی کے لئے ہر گھنٹے آدھے گھنٹے بعد دستیاب ہونا شروع ہوگئیںجو کراچی سے دس گھنٹے میں صادق آباد پہنچا دیتی ہیں تو جنوبی پنجاب کے انتہائ پسماندہعلاقوں کی خواتین نے محنت مزدوری کے لئے کراچی کا رُخ کرنا شروع کیا۔ جب تک یہ جنوبی پنجابسے کراچی تک کا سفر صرف بذریعہ ٹرین ہوتا تھا اس وقت تک ان خواتین کی کراچی تک رسائآسان نہ تھی۔ کراچی کی خواتین نے ان خواتین کو ھاتھوں ھاتھ لیا کیونکہ ماہانہ آٹھ دس ہزار پرکُل وقتی ملازمہ رکھنے سے بہتر تھا کہ ہزار پندرہ سو میں گھر کا جھاڑو پوچھا اور برتن کپڑےدھلوا لئے جائیں۔ دوسری طرف یہ کام کرنے والی ماسیوں کے لئے بھی زیادہ باسہولت تھا کہ کسیایک گھر میں آدھا ایک گھنٹے میں کام نبٹا کر دوسرے گھر جاکر بھی کام کرسکیں اور زیادہ پیسےکما سکیں۔ اس طرح یہ ایک ماسی ایک دن میں پانچ سے چھ گھروں میں کام کرکے مہینے کے دسسے بارہ ہزار یا اس سے بھی زیادہ رقم بنالیا کرتی تھیں۔ ساتھ ساتھ ان کو گھروں سے کھاناوغیرہ بھی مل جایا کرتا تھا۔یہ ماسیاں عصر کے وقت جب گھر لوٹتی ہیں تو ان کے پاس کئ گھروںسے ملا ہوا کھانا ڈبل روٹی حتی کہ پھل تک ہوتے ہیں جو بیگمات ان کو دے دیا کرتی ہیں۔ اس کےعلاوہ عید بقرعید پر نیا جوڑا ملنے کے ساتھ ساتھ مالکنوں کے استعمال شدہ پرانے کپڑے اورجوتیاں چپلیں بھی ملتی رہتی ہیں۔
یہ ماسیاں عموماً گھروں میں کپڑے دھونے ، صفائی ستھرائی ، برتن دھونے ، استری کرنے ، کھاناپکانے اور روٹی پکانے کا کام کرتی ہیں۔ زیادہ ترماسیاں ڈیفنس ، کلفٹن ، صدر ، برنس روڈ،کھارادر ، اولڈ سٹی ایریا ، گارڈن ، پی سی ایچ ایس سوسائٹی ، دھوراجی ، طارق روڈ ، گلشناقبال ، گلستان جوہر ، لیاقت آباد ، عزیز آباد ، گلبرگ ، ناظم آباد ، نیو کراچی ، ملیر ، لانڈھی ،کورنگی ، شاہ فیصل کالونی اور دیگر علاقوں میں گھروں میں کام کرتی ہیں
ہر علاقے میں کام کرنیوالی ماسی کا معاوضہ گھریلو کام کی مناسبت سے طے کیا جاتا ہے، عموماًکپڑے دھونے کے1500سے 2000روپے ، صفائی ستھرائی کے 1500سے 3000 ، برتن دھونےکے1000 سے 1500روپے ، استری کرنے کے فی جوڑا دس روپے یا 2000 ماہانہ ،کھانا بنانے کے1500 سے 3000روپے اور روٹی پکانے کے 1000 سے 1500روپے لیے جاتے ہیں، متوسط علاقوں میںکپڑے دھونے والی ماسی ہفتے میں 2 سے 3 دن متعلقہ گھروں میں جا کر کپڑے دھوتی ہے جبکہروٹی پکانے والی ماسیاں عموماً دوپہر 12 سے ایک اور شام کو7 بجے تک یہ کام کرتی ہیں. یہماسیاں صبح سویرے گھروں سے نکلتی ہیں اور مختلف گھروں میں کام نبٹا کر عام طور پر شام چھبجے تک اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ماسیوں کا معاوضہ بھی بڑھتا گیا اور جو ماسیاں 80 کی دھائ میںایک کام کے ڈیڑھ دوسو روپے معاوضہ لیا کرتی تھیں وہ آج فی کام ایک ہزار سے دوہزار تک پہنچچکا ہے۔ اب کراچی میں یہ ایک بہت بڑا بزنس بن چکا ہے اور گھروں کو ماسیاں فراہم کرنے کیایجنسیاں کھل چکی ہیں جو دونوں طرف سے کمیشن بٹورتے ہیں۔
جنوبی پنجاب کی یہ کام والی خواتین عام طور پر خوش اخلاق، باتونی، اور محنتی ہوتی ہیں۔ ایسیایسی ماسیاں بھی ہیں جنہوں نے اپنی محنت، ایمانداری اور اخلاق سے مالکن کو ایسا گرویدہبنایا کہ کئ کئ سالوں سے ایک ہی گھر میں کام کررہی ہیں۔ جبکہ ان میں سے کچھ موقع ملنے پرچھوٹی موٹی چوریاں کرنے سے بھی نہیں چُوکتیں۔ یہ ماسیاں عام طور پر پوش علاقوں کے قریبواقع کچی آبادیوں یا گوٹھوں میں رہائش اختیار کرتی ہیں یا خالی پلاٹس پر بھی جُھگیاں ڈال لیتےہیں۔ جب ایک ماسی کو کسی گھر میں کام ملتا ہے اور دوسرے گھروں سے بھی اس کو کام کی آفرملتی ہے تو پھر یہ گاؤں سے اپنی بہنوں، بھابیوں، نندوں حتی کی ماں اور ساس تک کو کراچی بلاکر اپنی ضمانت پر کام پر لگوادیتی ہیں۔ اس طرح کراچی میں اس وقت لاکھوں ماسیاں گھر گھرکام کررہی ہیں۔ ان میں سے اکثر کے شوہر، بھائ اور باپ وغیرہ بھی کراچی آکر محنت مزدوریکرنے لگے یا رکشہ چلانے لگے۔ لیکن درحقیقت ان کو کراچی میں جمانے والی یہی ماسیاں ہیں جنکا کام مستقل بنیادوں پر طلب میں رہتا ہے اور شوہر، بھائ یا باپ کی ملازمت یا کام وغیرہ ہو نہ ہویہ ماسیاں ان کے لئے ایک ایسی سہولت بن چکی ہیں جو ان کے لئے پکا پکایا کھانا بھی لاتی ہیںاور سگریٹ بیڑی اور نشہ پانی کے لئے رقم بھی فراہم کرتی ہیں۔ اکثر گھروں میں محنت مزدوری،راج مستری یا روغن و مرمت کا کام دیکھ کر اپنے مردوں کی خدمات بھی باجی کو پیش کردیتی ہیں۔
ان میں سے کچھ ماسیاں غلط راہ پر بھی چل نکلی ہیں۔ عورتوں کے معاملے میں مرد ہر جگہ کا ہیبدنیت ہوتا ہے۔ گھر میں کام کے لئے آنے والی جوان ماسیوں پر پیسہ دکھا کر ڈورے ڈالنے والے بھیبے شمار ہیں۔ جنہوں نے ان میں سے بے شمار ماسیوں کو غلط راہ پر لگادیا اور وہ اس کام کی آڑمیں جسم فروشی کا دھندہ بھی کرنے لگیں۔ جب بیگم صاحبہ صبح کے گیارہ بجے سو کر سرجھاڑ منہ پہاڑ بیڈ روم سے نکلیں گی جبکہ صاحب کو لونگ روم میں صوفے پر اخبار پڑھتے ہوئےچائے دینے کی ذمہ داری کھیتوں میں مشقت کرنے کی وجہ سے سڈول ترشےہوئے چھریرے جسموالی نمکین ماسی کے سپرد ہو تو گھر میں خواہ کتنا ہی اچھا میٹھا موجود کیوں نہ ہو صاحب کادل کُرکُرے نمک پارے کھانے کو مچل ہی جائے گا۔ کُچھ ماسیاں صاحب کی نظریں تاڑ کر مزیدمحتاط ہوجاتی ہیں اور اپنا دوپٹہ سر پر اچھی طرح اوڑھ کر سینے پر بھی چادر کی دو تہیں لٹکالیتی ہیں لیکن ان میں کچھ الہڑ ایسی بھی ہوتی ہیں جو پیسے والے صاحب کی نظروں کا مفہوم تاڑکر اپنا دوپٹہ سائڈ میں رکھ کر گلا بڑا کرکے صاحب کے سامنے جُھک جُھک کر گھوم پھر کر فرشپر پوچھا لگاتی ہیں اور صاحب کے سامنے جان بوجھ کر اپنے نشیب و فراز کی لچک مٹک دکھاتیہیں کہ عورت کے قطر اور مرد کی نظر کے درمیان تولی جانے والی یہ بولی یونیورسل ہے اور دنیا کاہر مرد اور عورت بغیر زبان سے کوئ لفظ ادا کئے اس کو خوب سمجھتے ہیں۔ہمارے موجودہ محلےمیں ہی کوئ دوسال پہلے تک ایک خوبرو ماسی آیا کرتی تھی۔ ساڑھے پانچ فٹ قد، تانت کی طرحتنا ہوا چھریرا جسم اور کھلتی گندمی رنگت والی اس چوبیس سالہ ماسی جب کیٹ واک کرتی گلیمیں داخل ہوتی تو محلے کے اکثر مرد حضرات کسی نہ کسی بہانے سے بالکونی یا گیٹ پر پہنچجاتے تھے کہ اس کی گجگامنی سی چال اور میٹھا سرائیکی لہجہ مرد حضرات کو بسمل کردیتاتھا۔ صاحب کے بھائ بیٹے بھی ماسیوں کے ساتھ معاشقے لڑاتے ہیں۔ویسے ان میں سے تیز طرارعورتیں ایک ساتھ کئ کو مغالطے میں رکھتی ہیں۔
کراچی میں بے شمار واقعات ماسیوں سے صاحب کے افئرز کے چلے اور چلتے رہتے ہیں۔ کچھ نےتو اپنے صاحبوں سے شادی بھی کرلی۔ لیکن زیادہ تر کو صاحب لوگوں نے غلط راہ پر ہی لگایا۔ لیکن اب بیگمات بھی بہت محتاط ہوگئ ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ جوان کے بجائے ادھیڑ پکیعمر کی ماسی رکھی جائے یا ماسی کو اس وقت بلایا جائے جب صاحب گھر سے نکل چکے ہوں۔
خود ہمارے اپاٹمنٹس میں ایسا ایک واقعہ ہوا تھا۔ ہمارے فرسٹ فلور پر ایک فیملی رہتی تھی۔ میاںبیوی اور ان کے دو بچے اور ان صاحب کی والدہ۔ ان صاحب کی والدہ اور یہ صاحب پی ٹی ویکراچی سینٹر میں جاب کرتے تھے۔ ان صاحب کی بیوی اچھی خاصی پیاری شکل و صورت کیدبلی پتلی پیاری سی خاتون تھیں۔ ان صاحب نے اپنے بچوں کو سپارہ پڑھانے کے لئے جنوبیپنجاب کے ایک مولوی صاحب کو رکھا۔ کچھ عرصہ بعد ان صاحب کی بیگم کے یہاں بچے کی ولادتہوئ تو گھر کے کام کاج کے لئے مولوی صاحب نے اپنی بیوی کی خدمات پیش کیں اور مولویصاحب کی بیوی گھر میں کام کاج کے لئے آنے لگیں۔ لیجئے جناب تھوڑے ہی عرصے بعد پتہ چلا کہان صاحب نے مولوی صاحب کی بیگم سے شادی کرکے اس کو صفورہ کے قریب ایک الگ کرائے کےفلیٹ میں منتقل کردیا۔ اب یہ اندر ہی اندر کیا سلسلہ چلا اور کیا کھچڑی پکی کہ مولوی نے اپنیبیوی کو طلاق بھی دے دی۔ ان صاحب نے اس مولوی کی مطلقہ سے شادی بھی کرلی ۔ سنا ہے کہمولوی صاحب کو معقول رقم بھی دی تھی۔ یہ ہمارا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔
ایک دوسرا واقعہ ہمارے اپارٹمنٹ کے سامنے والے اپارٹمنٹس میں ہوا تھا جہاں ایک ھٹے کٹے گورےچٹے پچاس پچپن کے پیٹے والے باریش مولانا جیسے صاحب اپنے جوان بیٹوں کے ساتھ رہتے تھے۔ان کی بیگم گھر میں بچوں کو قران پڑھانے کے لئے آنے والے قاری صاحب کے ساتھ بھاگ گئ تھیں۔صاحبو یہ عورت مرد کی نظر کا ٹانکہ کچھ ایسا عجیب و غریب ہوتا ہے کہ جس کے سامنے کوئنفسیات، کوئ علم، کوئ پیشنگوئ کوئ احتیاط کوئ پیش بندی نہیں چل پاتی۔ بس جہاں یہ جُڑناہوتا ہے جُڑ جاتا ہے۔
رہے کوئ سو پردوں میں ڈرے شرم سے
نظر اجی لاکھ چرائے کوئ صنم سے
آہی جاتا ہے جس پہ دل آنا ہوتا ہے
اب جہاں حالات بدلے اور کراچی میں امن و امان کی صورت حال بگڑی، لوگ دن دہاڑے اچکوں اورڈاکووں کے ھاتھ لُٹنے لگے تو وہاں ان ماسیوں میں بھی کالی بھیڑیں شامل ہوگئیں جو کراچی میںلُوٹ مار کی وارداتیں کرتی ہیں۔ ان کے باقاعدہ گینگز ہیں جو ساتھی مردوں کی مدد سے گھروںمیں چوری اور ڈاکے ڈالتی ہیں۔ ایک کامیاب واردات کے بعد یہ پہلی کوچ سے جنوبی پنجاب کا رخکرتی ہیں اور معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد دوسرے شکار کے لئے کراچی کا رُخ کرتی ہیں۔
آج سے کوئ چار سال پہلے ہماری پرانی کام والی ماسی کے پنجاب چلے جانے کے بعد ہماریبھابھی نے نئ ماسی رکھی تھی۔ لیکن یہ تین عدد جوان ھٹی کٹی ماسیاں تھیں جو ایک ساتھ ہیآیا کرتی تھیں۔ بہت پھرتیلی، چاق و چوبند۔ تینوں آتے ہی اپنا اپنا کام سنبھال لیتیں۔ ایک جھاڑودیتی دوسری ڈسٹنگ کرتی تیسری پوچھا لگاتی۔ یہ تینوں زرا سی دیر میں بڑی تیزی کے ساتھ گھرکا کام نبٹا دیا کرتی تھیں۔ اس کے بعد یہ تینوں بیٹھ کر اپنے ساتھ لایا ہوا دوپہر کا کھانا بھیکھاتی تھیں۔
اتفاق کی بات ہے کہ ان دنوں کچھ وجوہات کی بنا پر میں گھر پر ہی ہوتا تھا۔ ورنہ ہمارے گھرصرف بھابھی اور میری چھوٹی تین بھتیجیاں اور بھتیجا ہی گھر پر ہوا کرتے تھے۔ ان میں سےایک کم عمر اور قدرے شوخ ماسی چوری چوری مُسکرا مُسکرا کر مجھے بھی دیکھا کرتی تھی لیکناس بیچاری کو پتہ نہیں تھا کہ اس کا پالا ایک پروفیسر سے پڑا ہے۔
یہ پروفیسر کا کیا قصہ ہے آپ بھی سُن لیجئے۔
ایک صاحب کسی ریسرچ کے سلسلے میں دور دراز کے گاؤں دیہات میں گھوم رہے تھے۔ شام ہوتےہوتے وہ ایک ایسے علاقے میں نکل گئے جہاں چاروں طرف دور دور تک کھیتوں کے علاوہ کوئ آبادینہیں تھی۔ بڑے پریشان ہوئے کہ سورج ڈھل چکا ہے اب وہ اس بیابان میں کہاں رات گزاریں گے۔کچھ دور جاکر ان کو ایک فارم ھاؤس کے درمیان چھوٹا سا گھر نظر آیا۔ یہ بھاگے بھاگے دروازےپر پہنچے، دستک دی۔ دوتین بار دستک کے بعد ایک خوبصورت جوان عورت نے دروازہ کھولا۔ انصاحب نے اس کو اپنی مجبوری بتائ کہ مجھے رات گزارنی ہے صبح چلاجاؤں گا۔ عورت نے کہا کہمیں ضرور آپ کی مہمان نوازی کرتی لیکن آج میرے شوہر گھر پر نہیں ہیں اور وہ کل شام تک لوٹیںگے۔ میں گھر میں بالکل اکیلی ہوں اس لئے آپ کو رات بھر نہیں ٹھہرا سکتی۔ وہ صاحب عورت سےبولے کہ محترمہ آپ اس کی فکر نہ کیجئے۔ میں کوئ ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں۔ میں پروفیسر ہوںآپ بالکل بے فکر ہوجائیں۔ عورت کو یہ صاحب معقول لگے اس لئے گھر کے اندر لے گئ۔ فریش ہونےکے بعد پروفیسر صاحب کو چائے بھی ملی۔ اب جب رات ہوئ تو وہ عورت بولی کہ جناب ہمارے گھرمیں ایک ہی کمرہ ہے۔ آپ باہر برامدے میں سوجائیے۔ میں اپنے کمرے میں آپ کو نہیں سُلا سکتی۔یہ صاحب پھر گھگھیائے کہ محترمہ اس سردی میں برامدے میں ٹھٹھر جاؤں گا۔ آپ مجھے کمرےمیں سونے دیجئے۔ میں کوئ ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں میں پروفیسر ہوں۔ وہ عورت اس بات پرمطمئن ہوگئ اور پروفیسر کو اپنے کمرے میں جگہ دے دی۔ اب کمرے میں ایک ہی بیڈ تھا۔ وہ خاتونکہنے لگی کہ ہمارے پاس ایک ہی بیڈ اور کمبل ہے۔ آپ فرش پر چادر بچھا کر سوجائیں۔ یہ صاحبپھر منت کرنے لگے کہ پلیز آپ مجھے بیڈ پر اپنے ساتھ ہی سونے دیجئے تاکہ ہم کمبل شئر کرسکیں۔آپ بالکل بھی فکر نہ کیجئے۔ میں کوئ ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں میں پروفیسر ہوں۔ وہ خاتون اسبات پر بھی راضی ہوگئ اور پروفیسر کو اپنے ساتھ ہی بیڈ پر سُلا لیا۔ یہ صاحب رات بھر خاتونکے ساتھ ایک ہی کمبل میں آرام کی نیند سوئے۔ صبح تازہ دم اٹھنے کے بعد خاتون نے پروفیسر کوبہترین دیسی گھی کے پراٹھوں اور مزیدار آملیٹ کا ناشتہ کروایا۔ چلتے چلتے پروفیسر صاحب نےخاتون سے پوچھا کہ آپ اتنے عمدہ تازہ انڈے کہاں سے حاصل کرتی ہیں۔ وہ خاتون بولی کہ ہم نےاپنے گھر کے پچھواڑے کچھ مرغیاں پال رکھی ہیں جن سے ہم کو تازہ انڈے مل جاتے ہیں۔ یہ کہتےہوئے وہ پروفیسر کو گھر کے عقبی صحن میں لے گئ جہاں ایک پنجرے میں دو مرغیاں اور چارمرغے چُگ رہے تھے۔ پروفیسر نے حیرت سے پوچھا کہ یہ دو مرغیوں کے لئے آپ نے چار مرغے کیوںرکھے ہیں ۔ یہ تو زیادتی ہے۔ وہ عورت مسکرا کر بولی کہ جناب ان میں سے صرف ایک ہی مُرغا کامکا ہے۔ باقی کے تین پروفیسر ہیں۔
یہ ماسیاں کوئ ایک ھفتہ تک متواتر پابندی سے آتی رہیں اور پھر ایسی غائب ہوئیں جیسے گدھےکے سر سے سینگ۔ یعنی ایک ھفتہ کام کے پیسے بھی نہیں لئے۔ اس کے بعد کسی نے ان کو دوبارہکبھی محلے میں نہیں دیکھا۔
ہمارا یہی خیال ہے کہ وہ وارداتی تھیں لیکن جب انہوں نے ایک ھفتہ تک مسلسل جائزہ لیا کہ مردگھر میں ہوتا ہے تو ان کی دال نہیں گلی اور وہ نودو گیارہ ہوگئیں۔ واللہ اعلم!
آخر میں اتنا ہی کہنا ہے کہ اگر آپ کی ماسی دل لگا کر کام نہیں کرتی تو یہ بھی دیکھ لیں کہ آپاسے گھر کے کام کروانے کا کیا معاوضہ دے رہی ہیں۔ کہیں بہت کم پیسے پر آپ اس کی مجبوریسے فائدہ تو نہیں اٹھا رہیں؟ اگر کام کی نوعیت اور محنت کے مطابق معاوضہ دیا جائے تو ہو سکتاہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے اور آپ کے کاموں پر بھرپور توجہ دے۔ نگرانی بھیضروری ہے اور اپنی مرضی اور اصول کے مطابق کام بھی ضرور کروائیں لیکن ساتھ ہی احتراماور عزت کا تعلق برقرار رہنا چاہئے۔ ہم نام نہاد تعلیم یافتہ اور ترقی پسند لوگوں نے آج تک ان کامکرنے والیوں کے لئے جو بہت بڑا تیر مارا ہے وہ بس اتنا ہی ہے کہ اب ہمارے بچے ماسی کی جگہمیڈ کہنے لگے ہیں۔
|اگر آپ کے پاس ان ماسیوں سے متعلق کوئ واقعات یا تجربات ہیں تو شئر کیجئے۔|
|تحریر✍🏻|
Sanaullah Khan Ahsan
#sanaullahkhanahsan
#ثنااللہ_خان_احسن
#ماسی



کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں