بابر کی موت ہمایوں کی زندگی بن گئ! کیسے؟👇
انشا جی کی مشہور نظم کا شعر ہے کہاب عمر کی نقدی ختم ہوئیاب ہم کو ادھار کی حاجت ہےہے کوئی جو ساھو کار بنےہے کوئی جو دیون ہار بنےلیکن انسان کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنی عمر کی نقدی میں سے اپنے پیاروں
کوادھار نہیں دے سکتا۔ ورنہ اگر کسی پیارے کی عمر کی نقدی ختم ہونے لگتی تو ہم اس
کو اپنی نقدی سے ادھار دے کر مل بانٹ کر جی لیا کرتے۔ ھاں جی تمہاری عمر ختم ہوئ؟
ہماری کے کتنےسال رہتے ہیں؟ تیس سال۔ چلو تو پھر پندرہ پندرہ سال بانٹ لیتے ہیں۔ مزے
سے ساتھ جئیں گے اورساتھ ہی مر جائیں گے۔ واہ کتنا اچھا ہوگا نا! لیکن ایسا ہوتا نہیں
ہے۔لیکن اس دنیا میں ایک ایسی چیز ضرور ہے جس کے ذریعے ہم اپنے پیاروں اور خود اپنے
اوپر سےموت اور مصیبت کو ٹال سکتے ہیں اور وہ ہے صدقہ۔حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ پوشیدہ صدقہ خدائے
تعالیٰ کےغضب کو فرو کرتا ہے اور ظاہراً صدقہ دوزخ کی آگ کے لئے سپر کا کام دے گا‘
صدقہ بری موت سےبچاتا اور بلا کو ٹالتا‘ اور عمر زیادہ کرتا ہے اور فرمایا: صدقہ مال کو
کم نہیں کرتا۔ الصدقة فيالسر تطفئ غضب الرب- مستدرک علی الصحیحین،حدیث نمبر:6491“ صدقہ موت کو ٹال دیتا ہے” احادیث میں ہمیں یہ بات تو نہیں ملتی لیکناحادیث میں یہ بات ملتی ہے کہ صدقہ بری موت سے بچاتا ہے اور عمر میں اضافے کا سبب
ہے۔چنانچہ اگر موت کو ٹالنے سے مراد عمر میں اضافہ ہے تو یہ بات کہنا درست ہے۔ اور
رہی بات موتکا وقت متعین ہونے کی تو یہ حدیث کے خلاف نہیں ہے۔ کیونکہ تقدیر میں ہی
یہ بات بھی لکھی ہوتی ہے کہ بندہ صدقہ کرے گا تو اس کی اتنی عمر بڑھا دی جائے گی
پھر اس کے متعینہ وقت میں اسکی موت آئے گی۔دعا، صدقہ اور صلہ رحمی اور نیکی وغیرہ ایسے اعمال ہیں کہ جن کے بارے احادیث میں
ہمیں ملتاہے کہ وہ قضا کو ٹال دیتے ہیں یا رزق میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں یا بری موت
سے بچاتے ہیں یابرائیوں کو ختم کرتے ہیں یا اللہ کے غضب کو ختم کر دیتے ہیں وغیرہ ذلک۔
بعض اعمال کی بدولت قضا و قدر و لوٹانے کا مطلب یہی ہے کہ اس کی تقدیر میں یہ لکھا
تھا کہ وہ یہ دعا کرے گا یاصدقہ کرے گا تو اس کی فلاں مصیبت ٹل جائے گی یا فلاں
آزمائش سے بچا لیا جائے گا۔ یعنی دعا،نیکی، صلہ رحمی اور صدقہ بھی تقدیر میں سے ہے۔
قرون وسطی کے دور میں بھی لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ کوئی مصیبت یا
بیماری دعاؤں اور صدقات کے زور پر ایک شخص سے دوسرے میں یا کسی
بے جان شے میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال شہنشاہ
بابر اور ہمایوں کا واقعہ ہے جب بابر نے اپنی جان کے صدقے ہمایوں
کی زندگی مانگی تھی۔
افغانستان کے صوبے بدخشاں سے واپسی پر اور ہندوستان میں سنبھل (موجودہ ریاست اترپردیش) کی جاگیر عطا ہونے پر ہمایوں برصغیر کی
گرم اور مرطوب آب و ہوا میں قیام کے چھ ماہ کےاندر ایک پراسرار بیماری
سے شدید علیل ہو گیا تھا۔ ایسا بخار جس نے درباری معالجین کی
بہترین کوششوں کے باوجود کم ہونے سے انکار کر دیا، اس دور کی
تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ شاہی معالجین نے کوئی بھی علاج یا تدبیر
نہ چھوڑی لیکن جب ہمایوں کی صحت کو کوئ فرق نہ پڑا توشاہی
معالجین نے بابر کی توجہ قرون وسطی کے دور سے قائم اس رسم اور
عقیدے کی طرف دلائ جس میں خدا سے دعا کی جاتی ہے کہ مریض کی
بیماری کسی دوسرے جاندار یا شے میں منتقل کر دی جائے۔
اگرچہ دانا حکیموں کا تجویز کردہ انتخاب سب سے قیمتی شے کوہ نور
ہیرا تھا (جسے ہمایوں کوگوالیار کے بادشاہ بکرمجیت کے خاندان نے اپنی
جان بچانے کے لیے تحفہ میں دیا تھا)، لیکن جب بابر نے ہمایوں کی جان
اور کوہ نور ہیرے کی قدروقیمت کا موازنہ کیا تو اس کو ہمایوں کی
زندگی کے بدل کوہ نور ھیرا بہت حقیر محسوس ہوا۔ کوئ ایسی چیز جو
شہزادے کی زندگی کے مساوی ہو سکے ، تب بابر نے بہت سوچ سمجھ کر
شہزادے کی زندگی کے بدلے میں اپنی جان داؤ پر لگانےکا فیصلہ کیا تھا۔
ہمایوں نامہ (جو شہنشاہ اکبر کے دور میں بابر کی سب سے چھوٹی
بیٹی گلبدن بیگم نے لکھا تھا
میں بیان کیا گیا ہے۔
گلبدن بیگم شہزادے کی صحت میں بتدریج بہتری آنے لگی اور بابر کی حالت بد سے
بدتر ہونے لگی۔ جس کیوجہ سے اگلے چند مہینوں کے اندر (26 دسمبر1530)
اس کی موت واقع ہو گئی تھی، لیکن یہ ایک معجزہ تھا جو تاریخ
میں رقم ہوگیا۔۔
کہتے ہیں کہ بابر ایک طویل عرصے سے آنتوں کی تکلیف کی وجہ سے
بیمار تھا جسے اس کےدرباری معالجین نے زہر دینے کا اثر بتایا تھا، یہ
زہر بابر کو اس کے حریف ابراہیم لودھی کی والدہ نے دیا تھا، ابراہیم
لودھی وہی افغان بادشاہ تھا جسے بابر نے پانی پت کی جنگ میں
شکست دی تھی)
یہ واقعہ ایک باپ کی اپنے بچوں سے محبت کی ایک اعلی مثال ہے۔ بابر
اگرچہ ایک راسخ العقیدہ سنی تھا، لیکن اس نے اپنے بیٹے کی جان کے لئے
یہ نذر شیعہ عقیدے کے مطابق حضرت علیؓ سےدعا کی تھی، ایک سنی
مسلمان عام طور پر اپنے عقیدے کے خلاف ایسی نذر نہیں مانگتا لیکن
بابرنے بیٹے کی محبت میں مجبور ہوکر اور اپنی کمزور حالت میں بھی،
اس دعا اور نذر کے قبول ہونےکے لیے کئی دنوں تک روزہ رکھا تھا۔
سعادت حسن منٹو نے بابر کی موت پر ایک ڈرامہ بھی لکھا ہے جس کا
عنوان” بابر کی موت” ہے۔
اس طرح بابر رہتی دنیا تک کے لئے ایک باپ کی اپنے بیٹے سے محبت کیبہترین مثال چھوڑ گیا۔






کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں