اون کے گولے اور سلائیاں!
ھاتھ سے بُنی جرسیاں اور سوئٹرز
ایک گُم ہوتی روایت!
کیا آپ کو سوئٹر کا ڈیزائن دیکھ کر کاپی کرنا آتا ہے؟
ہاتھوں سے بنے اون کی جرسی سوئیٹر کی نرمی و گرمی کی بات ہی کچھ اور ہے جس کے ایک ایکپھندے ایک ایک ٹانکے میں انگلیوں کی پوروں کا لمس اور محبت و خلوص کی حرارت و دبازتمحسوس ہوتی ہے جیسے سچے رشتوں کا سچا پیار۔۔ لیکن اب ہم لوگ سچے پیار کی نرمی و گرمیکے بجائے دکھاوے کی خوبصورتی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ریڈی میڈ برانڈڈ سوئٹرز اب ہم کو زیادہاسٹائلش لگتے ہیں۔ محبت اور اپنائیت کی جگہ اب انداز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دراصل اسٹائل اورفیشن ہم دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اپناتے ہیں جبکہ جو توجہ اور محبت ہم کو رشتوںاور چاھتوں کی وجہ سے بن مانگے مل جاتی ہے اُس کی ہم قدر نہیں کرتے۔
کسی زمانے میں گھروں میں اُونی سوئیٹر اور جرسی ٹوپوں کی بُنائی کبھی اہم معاشرتی سرگرمیہوا کرتی تھی۔ خواتین کے سگھڑاپے میں ہاتھ سے اُونی سوئیٹر بننے کی قابلیت کی بڑی اہمیتتھی۔ سلائی کڑھائی اور کروشیا کے ساتھ ساتھ خوبصورت ڈیزائنوں میں اُونی سوئیٹر بننا لڑکیوںاور عورتوں کی اضافی خوبی شمار ہوتی تھی۔ شادی کی غرض سے لڑکی کو دیکھنے کے لئے آنےوالی خواتین کو بالخصوص لڑکی کے بنائے گئے سلائی کڑھائی اور بنائی کے نمونے دکھائے جاتےتھے جس سے لڑکی کے سلیقے اور سُگھڑ پنے کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ شادی شدہ خواتین اور گھرکی بڑی بوڑھیاں سردیوں میں پیدا ہونے والے بچوں کے لئے پہلے ہی سے اونی ٹوپیاں، سینہ بند،سوئیٹر اور پاجامے بُن کر تیار رکھتی تھیں۔
بلکہ پرانی فلموں میں اگر کسی خاتون کو حاملہ دکھانا یا بتانا مقصود ہوتا تھا تو ان ھیرو اورھیروئن کی شادی کے بعد شب عروسی کچھ اس طرح دکھائ جاتی کہ ھیرو دلہن بنی ھیروئن کیسیج پر بیٹھ کر اس کا ھاتھ تھام کر اس کے چہرے کی طرف جھکتا جاتا اور ھیروئن پیچھے کیطرف نیم دراز ہونے لگتی۔ تماشائیوں کے دل کی دھڑکن بڑھنے لگتی لیکن اس سے پہلے کہ ھیرو کےہونٹ ھیروئن کے چہرے کو چھوئیں دو عدد پھول اسکرین پر لرزتے ہوئے نمودار ہوتے اور آپس میںبغلگیر ہوجاتے۔ اس کے اگلے فریم میں ھیروئن کو ایک عدد ننھا سا سوئٹر بنتے ہوئے دکھادیا جاتاتھا جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ شب عروسی بہت بھرپور طریقے سے منائ گئ اور مشترکہکوششیں بارآور ثابت ہوئیں۔
پرانے زمانے میں خواتین گھروں میں اسی طرح کی گرھستی میں مصروف رہتی تھیں۔ سردیوں کیآمد سے پہلے لحاف گدوں کی روئ نکلوا کر دھنکوائ جاتی پھر ان کو دوبارہ غلاف میں بھر کرموٹے دھاگے اور سوئے کی مدد سے ڈورے ڈالے جاتے۔ صندوقوں میں رکھے تیز فینائل کی بووالےسوئیٹر ادھیڑ کر یا پھر بازار سے اون کے گولے اور نٹنگ سلائیاں منگوائ جاتیں۔ ان سلائیوںکے موٹائ کے لحاظ سے کچھ نمبر بھی ہوتے تھے۔ بچپن میں یاد ہے کہ اکتوبر نومبر آتے ہی امیبازار سے اون کے گولے منگواتیں اور پھر گھر میں پچھلے سال منگوائ گئ نٹنگ سلائیوں کی ڈھنڈیاپڑتی لیکن ہم گرمیوں میں ان سلائیوں کو کمان میں بطور تیر لگا کر نشانے لگاتے تھے جس کی وجہسے وہ سلائیاں کسی کام کے قابل نہ رہتیں اور پھر نئے سرے سے سلائیاں منگائ جاتیں۔ اون ایکتو ABC برانڈ ہوتی تھی۔ دوسرا ایک اور بھی برانڈ تھا جس کا نام ونٹا ہوتا تھا اور وہ ABC سےمہنگا ہوتا تھا۔ ونٹا ثنااللہ والے بناتے تھے جن کی ساڑھیاں آج بھی مشہور ہیں۔ اس کے اشتہار80 کی دھائ کے آخر تک ٹی وی پر چلا کرتے تھے۔
موسم سرما میں ہماری خالہ جان اور امی کے درمیان باقاعدہ مقابلہ چلتا تھا کہ کون پہلے سوئیٹرمکمل کرتا ہے۔۔۔۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ میری خالہ (اللہ انہیں غریق رحمت کرے) کا کوئ نہ کوئپھندا غلط ہوجاتا یا ڈیزائن بگڑ جاتا یا پھر سائز میں کچھ کمی بیشی رہ جاتی اور ان کو سوئیٹرادھیڑ کر دوبارہ نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا۔ ہماری ممانی جان نے تو باقاعدہ سنگر سے نٹنگکی تربیت لے کر نٹنگ مشین خریدی تھی جس پر وہ دن بھر عمدہ سوئئیٹرز شالیں اور ٹوپیاں بڑےخوبصورت ڈیزائن میں بنتی تھیں۔ اس نٹنگ مشین کی بناوٹ بڑی پیچیدہ اور نازک سی ہوتی ہےاس نٹنگ مشین پر جب ہینڈل پکڑ کر سینکڑوں سلائیوں پر دائیں بائیں پھیرا جاتا ہے تو اس کی زوںزوں کی آواز بڑی بھلی لگتی تھی اور اس کے ایک ہی پھیرے میں پھندوں کی ایک پوری لائن تیارہوجاتی تھی۔ اس سے سینکڑوں طرح کے خوبصورت ڈیزائن کے جرسی سوئیٹر انتہائ نفیس اورخوبصورت تیار ہوتے ہیں۔ آج بھی کراچی کے علاقے صدر میں سنگر شوروم موجود ہے جو اب بھیخواتین کو سلائ اور نٹنگ کی تربیت بھی فراہم کرتے ہیں اور ضرورت مند خواتین کو آسان اقساطپر نٹنگ
مشینیں اور سلائ مشینیں بھی فراہم کرتے ہیں۔
اس زمانے میں گھر میں ہر خاتون کسی نہ کسی کا سوئیٹر یا ٹوپی بنتی نظر آتی۔۔۔ خاص طور پرجس گھر میں کسی نئے بچے کی آمد آمد ہوتی تو وہاں تو بڑی سرگرمی سے دھڑا دھڑ ننھی ننھیٹوپیاں رنگ برنگی جرابیں اور گڑیا کے ناپ کے سوئیٹر بنے جاتے تھے۔ لیکن اب ہمارے یہاں ان تمامچیزوں کو دقیانوسیت سمجھا جانے لگا ہے۔ جتنی زیادہ مشینیں اور کام میں سہولت پیدا ہوتیجارہی ہے اتنا ہی وقت کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔
سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی رنگ برنگی اون کے گولے گھروں میں لڑھکتے پھرتے دکھائی دیتےتھے۔ لڑکیاں اور عورتیں اون سلائیاں سنبھالے اپنا وقت گزارتی تھیں۔ سوئیٹر،مفلر، دستانے، شالیںاور ٹی کوزیاں بنی جاتی تھیں۔ گھر کے بنے ہوئے سوئیٹر بچے بڑے سبھی شوق سے پہنتے تھے۔سوئیٹروں پر مختلف ڈیزائن بنائے جاتے تھے۔ نوجوانوں میں سنگل والے سوئیٹر مقبول تھے۔مختلفڈیزائن سوئیٹر بننے والی کی مہارت کا ثبوت ہوتے تھے۔
باقاعدہ ایک سے ایک نئے ڈیزائن کو تلاش کیا جاتا۔ ایک خاتون جن کا تعلق لاہور سے ہے بتاتی ہیںکہ اسی لاہور میں جہاں انارکلی میں کسی راہ گیر کے سوئیٹر کا نمونہ دیکھ کے ہماری ایک عزیزہنے وہیں سے اون سلائیاں خریدیں اور ان صاحب کا تعاقب کرتے کرتے نمونہ اتار لیا، اسی لاہور میںاب کوئی ہاتھ کے بنے سوئیٹر نہیں پہنتا اور کسی کو چشمِ بلبل کا نمونہ ڈالنا نہیں آتا۔
اس ڈیزائن اتارنے کے چکر میں بڑے بڑے لطیفے ہوتے تھے۔
ایک خاتون اپنی والدہ کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ واپڈا دفتر سے بجلی کے میٹر کےسلسلے میں ایک آدمی ہمارے گھر آیا۔ ہمیں اس کے سوئٹر کا ڈیزائن پسند آگیا۔ ہم نے ابا جی سےکہا اسکو بٹھا کر رکھیں ہم نے ڈیزائن لینا ہے۔ بڑی خالہ نے چائے بنائی اور اتنی دیر میں امی نےڈیزائن اتار لیا۔
اسی طرح ایک خاتون اپنی والدہ سے متعلق واقعہ بیان کرتی ہیں کہ ھماری امی بھی ایسے ھیلوگوں سے ڈیزائین کاپی کرتی تھیں ایک بار بینک میں ایک صاحب کا سوئیٹر گھور گھور کر دیکھرھی تھیں۔ وہ بے چارے کنفیوز ھوکر بولے باجی معافی چاھتا ھوں میں آپکو نہیں پہچان پایا آپبہت دیر سے مجھے دیکھ رھیں ھیں مگر میری یاداشت میں آپ نہیں آرھیں، امی بولیں ارے میں توڈیزائن دیکھ رھی تھی آپکے سوئیٹر کا، بے چارے مزید شرمندہ ھوگئے۔ گھر آکر ھم نے امی کیکلاس لی کہ امی آپ بھی نا!
پھر رفتہ رفتہ گھریلو دستکاریوں اور ہنر و فن کی دوسری اشیاء کی طرح اون کی ہاتھ سے بنیچیزیں بھی طاق نسیاں پر رکھ دی گئیں۔ مشین سے بنے سوئیٹراشتہاروں سے نکل کر گھروں میں آگئے اور فیشن کا حصہ بن گئے۔
سوئیٹر موسم سرما کا ایک خاص پہناوا ہے ، سوئیٹر گھر کا بنا ہو یا باہر کا اس کے لئے اونبھیڑوں اور چند مخصوص قسم کی بکریوں یا بھیڑوں سے حاصل کیا جاتا ہے ، یہ اون ریشے دارلحمیات سے بنا ہوا ایک مادہ لینولن
ہوتا ہے جو خاص قسم کی جلد کے خلیوں سے حاصل کیا جاتا ہے ، یہ پالتو بھیڑوں سے حاصل ہوتاہے لیکن بکری اور یاک وغیرہ کی کھال
سے بھی کیمیکل ڈال کر بنایا جا سکتا ہے ۔
کشمیرا اور پشمینہ:
کپڑا بنانے کے لئے دنیا بھر میں کپاس کے بعد اون کی سب سے زیادہ اہمیت ہے ، یہ ریشہ سردیکو جذب کرتا اور جسم کو گرمائش دیتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کشمیرینسل کی بکریوں سے دنیا کی اعلی ترین اون حاصل کی جاتی ہے۔ یہ اون دنیا بھر میں کشمیریاون کے نام سے مشہور ہے ، اون کی اس ورائٹی کو پشمینہ بھی کہتے ہیں ۔
یہ اون وزن میں انتہائی ہلکی لیکن بہت گرم ہوتی ہے ، کشمیر وول کا ایک عام سا مردانہ سوئیڑامریکی مارکیٹ میں ڈیڑھ سو سے دو سو ڈالر میں بیچا جاتا ہے ۔ کشمیری پشمینہ کو زیادہ ترشالیں بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، ان شالوں کی قیمت بھی اوسطا دو سو ڈالر فیشال ہوتی ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں سالانہ آٹھ کروڑ ڈالر مالیت کی پشمینہ اون حاصل ہوتی ہے ۔وادی میں تبتی اور منگولیا نسل کی بکریاں بھی موجود ہیں لیکن ان سے حاصل ہونے والے اون میںوہ نرمی اور ملائمت نہیں ہوتی نہ ہی وہ پشمینہ کی طرح گرم ہوتی ہے ، پشمینہ اون دینے والیبکریوں کی نسل بہت نایاب ہے ۔
کشمیر میں پشمینہ سازی کے موجد:
کشمیر میں پشمینہ سازی کے موجد تاجکستان سے آۓ ھوۓ ولی اللّہ سید امیر کبیر ؒ تھے انھوں نےکشمیر کو چھوٹا ایران بنادیا تھا بقول علامہ اقبال ؒ ۔
انکے خانقاہی سسٹم میں صنعتوں کو فروغ دینا تھا جسکی بنإ پر آج بھی کشمیری دستکاریوں کومھنگے داموں خریدا جاتا ھے۔
انکا انتقال لنکوٹ مانسہرہ میں ھوا مگر انکا جسد خاکی انکی وصیت کے مطابق تاجکستان لےجایا گیا لنکوٹ میں انکی تین سو سالہ پرانی علامتی یادگار اب بھی ھے۔
جو محکمہ اوقاف کے کنٹرول میں ھے
انگورا وول:
انگورا بھی اون کی ایک انتہائ اعلی اور قیمتی ورائٹی ہے جو ایک خاص قسم کے خرگوش سےحاصل کی جاتی ہے۔ یہ بہت ھلکی پھلکی لیکن انتہائ نرم اور گرم ہوتی ہے۔ پاکستان میں کافیلوگ انگورا نسل کے خرگوش کی فارمنگ کررہے ہیں۔
اونی سوئٹرز کی اقسام:
ڈیزائن یا اسٹائل کے لحاظ سے سویٹر کے چار اہم انداز ہیں: کارڈیگن، پل اوور، ٹیونکس اور ٹرٹلنک۔...
کارڈیگن سویٹر۔ ... Cardigan Sweaters
یہ فل سلیوز یا سلیو لیس ہوسکتے ہیں لیکن سامنے سے کھلے ہوتے ہیں۔ ان میں بٹن لگے ہوتے ہیں۔
پل اوور سویٹر۔ ... Pullover Sweaters. ...
یہ جرسی نما ہوتے ہیں جو سامنے سے بند ہوتے ہیں۔ ان کو سر سے اوپر کی طرف کھینچ کر اتاراجاتا ہے اس لئے پُل اوور کہلاتے ہیں۔
کرونیک سویٹر۔ ... Crewneck Sweater
یہ گول ٹی شرٹ جیسے گلے والی جرسیاں ہوتی ہیں۔
وی گردن کا سویٹر۔ ... V-Neck Sweater
یہ وی شیپ گردن کے ہوتے ہیں۔
ٹیونک سویٹر۔ ... Tunic Sweaters. ...
یہ لمبے ڈھیلے ڈھالے چوغہ نما سوئٹرز ہوتے ہیں
ٹرٹلنک سویٹر۔ ... Turtleneck Sweaters
یہ ھائ نیک بھی کہلاتے ہیں۔ یہ گردن کو ٹھوڑی تک ڈھک دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں جدت و فیشن کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ہر کام مشین سے کیا جائے۔ کچھدقت طلب کام ایسے ضرور ہیں کہ جن کو کرنے کے لئے مشین کی ضرورت ناگزیر ہے جیسے کہکپڑے دھونا۔۔۔۔ یا فرش کی صفائ کے لئے ویکیوم کلینر۔ لیکن صفائ ستھرائ جھاڑ پونچھ اورچیزوں کو سلیقے قرینے سے رکھنے کا جو لطف خود کرنے میں ہے وہ خادم یا خادمہ کے ھاتھوںمیں نہیں ہے۔
ہم انگریز سے زیادہ انگریز بننے کے چکر میں ہیں۔ جبکہ میں نے دیکھا کہ جب پاکستانی کرکٹ ٹیمانگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے دورے پر گئ تو وہاں میچ کے دوران اکثر تماشائ خواتین آرام سے گھاسپر بیٹھے سوئیٹر بنتے نظر آئیں۔ گاہے بگاہے کھیل کی طرف بھی نظر ڈال لیتیں لیکن ان کی انگلیاںنہایت مہارت و سرعت کے ساتھ سوئیٹر بننے میں مصروف رہتیں۔ برطانیہ میں مرد بھی نٹنگ کرتےہیں اور یہ باقاعدہ ان کی ایک روایت ہے۔ خاص طور پر اسکاٹ لینڈ کے مرد بہت عمدہ نٹنگ کرتےہیں۔
ہم نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے
کوا چلا ھنس کی چال اپنی بھی گیا بھول
یورپئین لوگ اب بھی اپنی پرانی روایات پر قائم و دائم ہیں۔ اٹلی اسپین یونان میں دیکھئے کیسیقدامت پسندی ہے۔
ہم کو فوڈ پانڈا پر لگا کر خود آرگینک کی مارکیٹس کھولے بیٹھے ہیں۔
نٹنگ کا ایک بہت ہی بہترین فائدہ یہ ہے کہ انگلیوں کے پورووں پر ھلکی ھلکی رگڑ سے جو مساجہوتا ہے وہ آپ کے پورے جسم کو ریلکس رکھتا ہے اور ذہنی سکون فراہم کرتا ہے۔
اکثر، بلکہ زیادہ تر یوروپین خواتین کو بنائی کرتے دیکھا ہے۔ ایمسٹرڈیم، ہالینڈ میں تو بہت زیادہسینے پرونے کا رواج ہے اور بڑی بوڑھیاں نہیں، بلکہ نوعمرلڑکیاں بنائی کرتی ہیں۔ Albert kiepstrat ایمسٹرڈیم کا مشہور اسٹریٹ بازار ہے جہاں ستمبر سے اوون، سلائیوں کی کئی دکانیںسج جاتی ہیں۔ وہاں میں نے ایسی ایسی مختلف اوون دیکھی جو یہاں شاید ہی دستیاب ہو۔ ہالینڈکے ارد گرد جتنے ممالک میں جانا ہوا، وہاں سلائی بنائی کا بہت رواج دیکھا ہے۔ ہمیں readymade اور branded پر لگا کر وہ لوگ خود Handmade اور do it yourself کو فروغ دے رہے ہیں۔
ایسی مصروفیات انسان کا ذہن مصروف رکھتی ہیں اور انسان منفی سوچ و ذہنی تنائو سے دوررہتا ہے۔ سوئیٹر جرسی ٹوپی مکمل ہونے کے بعد کی خوشی اور پھر کسی اپنے پیارے کو سردی سےبچنے کے لئے اسے پہنے دیکھ کر جو قلبی مسرت حاصل ہوتی ہے وہ ایسا کچھ بننے والی ہیجانتی ہے۔
ایک چٹکی سیندور کی قیمت تم کیا جانو چنی بابو!😜😁
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں کچھ کتب، ویب سائٹس اور بلاگز سے بھی مدد لی گئ ہے۔
تحریر✍🏻
Sanaullah Khan Ahsan
#sanaullahkhanahsan
#ثنااللہ_خان_احسن
#اون_کے_گولے
#ھاتھ_کے_بنے_سوئٹرز
#handknittedsweaters
#hand_knitted_sweaters
16 نومبر 2022











کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں