لچھا مٹھائ والا!
* سوہن لچھے، سوہن پاپڑی اور پتیسہ میں کیا فرق ہوتا ہے؟
*کچھ دیوالی کی مٹھائ سوھن پاپڑی کا ذکر!
*ہندوؤں کے مونسون تہواروں کی خاص مٹھائ پتیسہ:
*ایران کی سوہن پشمکی اور ترکی کی پشمانیہ!
مٹیالے سے سفید شلوار قمیض میں ملبوس سر پر ایک لمبے پگڑی نما کپڑے کا سانپ کی کنڈلی نماگول سا اینڈوا بنا کر اس پر بڑا ایلمونیم کا تھال جمائے جس میں دھندلی سی پلاسٹک شیٹ سےڈھکے لچھا مٹھائ کے دو انچ موٹے چار انچ لمبے اور تین انچ چوڑے قتلے اوپر نیچے ترتیب سے جمےہوتے تھے۔ ایک ھاتھ سے لچھا مٹھائ کا تھال سر پر سنبھالے دوسرے ہاتھ میں تھال دھرنے کے لئےسرکنڈوں کا لمبا اور پتلا مونڈھے نما اسٹینڈ۔ دھیرے دھیرے احتیاط سے چلتا بازار میں کوئ صافستھرا خالی گوشہ دیکھ کر وہاں پہلے تو اپنا اسٹینڈ کھڑا کرتا ۔ پھر اس پر احتیاط سے سر سےاتار کر تھال جماتا۔ تھال پر ایک چھوٹا سا ترازو اور پاؤ چھٹانک کے باٹ اور پرانے اخبار کے ایکسائز میں کٹے ٹکڑوں کا بنڈل تھیلے سے نکال کر رکھتا۔ کپڑے کا اینڈوا کھول کر اس سے خواہمخواہ ہی تھال کے کنارے اور اسٹینڈ کو جھاڑتا۔ پھر اس کپڑے کو جھاڑ کر گردن میں مفلر کیطرح ڈالتا اور پھر وقفے وقفے سے پیتل کی ایک چھوٹی سی چمکدار گھنٹی بجاتا ہوا لچھے والالچھے لے لو کی صدا لگاتا۔ ایک دو روپے کا خریدو تو ایک قتلے سے چھری کی مدد سے کاٹ کرچھوٹے سے چمٹے میں دبا کر اخباری کاغذ کے ٹکڑے پر رکھ کر دیتا تھا۔ اگر پانچ دس روپے کا لیتےتو مٹھائ ترازو میں تول کر تھیلے سے خاکی کاغذ کے لفافوں کے بنڈل سے ایک لفافہ کھینچ کرنکالتا ، لفافے کو دونوں چٹکیوں میں پکڑ کر پھونک مار کر اس کو کھولتا اور اس میں مٹھائ ڈالکردیتا۔ تول پورا ہونے کے باوجود تھال میں لچھے کے قتلے کاٹنے کی وجہ سے جو ریشے بکھرے ہوتےوہ بھی چمٹے کی مدد سے اٹھا کر تولہ دو تولہ مزید ڈال دیتا۔ لفافے میں مٹھائ ڈالتے ہی اس کیبیرونی سطح پر روغنی نشان پھیل جاتے جن سے دیسی گھی مہک آتی تھی۔ خدا جانے یہ کہاںسے آتا تھا کہاں رہتا تھا لیکن یقین کیجئے صاحبو ایسی خستہ سفید ایک ایک بال کا ریشم جیساریشہ ریشہ الگ۔ ایسی لچھا مٹھائ میں نے اس کے علاوہ کہیں نہیں دیکھی۔ منہ میں ڈالتے ہیگھل جاتی اور ذائقہ ایسا کہ کچھ نہ پوچھئے۔ دیسی گھی کی سوندھی مہک والا۔ شاید اس وقتمیں لوگ یکسو ہو کر ایک ہی پیشے سے مکمل خلوص اور ایمانداری سے جڑ جاتے تھے۔ قناعت اورصبر و شکر گزاری کے ساتھ جو بھی چیز بناتے پوری محنت اور اخلاص سے بناتے تھے۔ یہی وجہہے کہ چیزوں میں ذائقہ تھا۔ آجکل تو یہ حال ہے کہ اکثر دکانداروں کا بس چلے تو لوگوں سے پیسےوصول کرکے ان کو مٹی پتھر پر ٹرخادیں۔ نہ وہ ذائقے رہے نہ برکتیں۔
میرے بچپن میں ہر دو تین مہینے بعد یہ پھیری والا آتا تھا۔ جب بھی یہ نظر آتا تو ہم کو ایسا لگتاگویا دنیا کی کوئ بہت ہی نایاب اور لذیذ ترین سوغات والا آگیا ہے۔ میں بڑے شوق سے کھاتا تھااور میری ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ مجھے وہ پورا پاؤ بھر کا قتلہ بغیرکاٹے پیٹے ثابت ملجائے۔ ایک مرتبہ جب ہم دادا جان کے ساتھ لچھا لینے اس کے پاس گئے تو یہ ایک ہوٹل کی بینچ پربیٹھا روٹی سالن کھارہا تھا۔ ہمیں یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ یہ لچھےوالا تو بجائے روٹی کے خوب پیٹ بھر کر لذیذ میٹھے لچھے کھاتا ہوگا۔ صاحبو بچپن بھی کیا زمانہہوتا ہے جب انسان کو روپے پیسے کے بدلے ریوڑی مٹھائ اچھی لگتی ہے۔ ھائے بچپن میں انسانکی سوچ کتنی معصوم ہوتی ہے۔ اس زمانے میں میرے دادا جان حیات تھے۔ وہ مجھے دو روپے کالچھا دلواتے تھے۔ اس وقت میرے لئے یہ لچھا مٹھائ کوئ بہت ہی اسپشل عنقا قسم کی چیز تھی۔ایک مرتبہ میں نے اپنی پاکٹ منی جمع کر کے دادا جان سے وہ پورا قتلہ منگوایا
حقیقت یہ ہے کہ وہ جو پھیرے والے کے لچھے میں مزہ ہوتا ہے وہ مٹھائ کی دکان والی سوہن پاپڑیکا نہیں ہوتا۔ کم چیز جو آپ کو سیر نہ کرسکے اس کی چاہ برقرار رہتی ہے۔ دل بھر کر کھا لیا توپھر چاہ برقرار نہیں رہتی۔ بچپن میں کیونکہ ہمارے پاس بہت کم پیسے ہوتے ہیں اس لئے تھوڑی چیزلے سکتے ہیں جبکہ ہوکا یہ ہوتا ہے کہ اگر پیسے ہوں تو پورے کا پورا تھال ہی خرید لیا جائے۔ اگربچوں کے پاس بٹوہ بھر نوٹ ہوا کرتے تو پتہ چلتا کہ ننھے میاں حلوائ سے گلاب جامنوں کا پوراتھال لئے چلے آرہے ہیں۔
صاحبو اب پتہ نہیں کہ مٹھائیوں کا ذائقہ ختم ہوگیا یا عمر کی وجہ سے ہمارے قویٰ اور اشتہاضعیف ہوگئے ہیں۔ یا شاید زندگی کی ٹینشنوں اور مصائب نے ہمارا دھیان بانٹ دیا ہے کہ بچپنکی طرح بے فکری اور فارغ البالی سے چیزوں کے ذائقے پر توجہ مرتکز نہیں ہوپاتی۔
شاید سب کچھ وہی ہے لیکن وہ آٹھ دس سال کا کمسن لڑکا کہاں سے لائیں جو دو روپے کا لچھاخرید کر مزے سے اس کو کھایا کرتا تھا۔
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
بھارت اور پاکستان کی روایتی مٹھائ:
ہماری روایتی دیسی مٹھائیوں کے ذائقے کی جو سب سے عمدہ اور لذیذ خاصیت ہے وہ دیسی گھیکی مہک اور ذائقہ ہوتا ہے۔ لیکن اب عجیب روایت چل نکلی ہے کہ دیسی مٹھائیوں میں بھی ونیلا،اسٹرابیری اور پستہ وغیرہ کا فلیور شامل کرکے روایتی ذائقوں کا ستیا ناس کردیا گیا ہے۔ قلاقندجیسی لذیذ چیز میں ونیلا کا فلیور اس قدر ناگوار گزرتا ہے کہ کچھ نہ پوچھئے۔ لیکن اب بھی کچھروایتی انداز سے مٹھائیاں تیار کرنے والے موجود ہیں جن کے ذائقوں میں آج بھی وہی پرانا دیسیگھی کا ذائقہ اور مہک شامل ہوتی ہے۔
شاید ہی کوئ پاکستانی ہو جس نے اپنے بچپن میں یہ لچھا مٹھائ نہ کھائ ہو۔ بچپن میں لطفاندوز ہونے والی سوغاتوں میں شاید یہ سب سے زیادہ لذیذ ترین چیز ہوا کرتی تھی۔ اس کی تیاریمیں کافی محنت لگتی ہے۔ جتنا زیادہ اس کو بار بار لپیٹ کر بل دئے جاتے اور کاٹا جاتا ہے اتنا ہیزیادہ باریک اور بالوں جیسا لچھا بنتا جاتا ہے۔ زرا کم محنت سے جو چیز تیار ہوتی ہے اس کوسوہن پاپڑی کہتے ہیں۔ سوہن پاپڑی یا پتیسہ تو کافی سخت اور تہہ دار ہوتا ہے۔ البتہ لچھا بالوںجیسا اتنا خستہ کہ ھاتھ لگاؤ تو بکھرنے لگتا ہے۔ انتہائ نفیس مٹھائ ہے۔
لچھا مٹھائ کی تیاری:
سوہن پاپڑی یا لچھا بنانے کے لئے پہلے میدہ کو دیسی گھی میں بھونتے ہیں اتنا کہ میدہ گھی پیکر کھوئے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ کچھ لوگ میدہ میں کچھ بیسن بھی ملا دیا کرتے ہیں۔ پھرچینی اور پانی سے ایک خاص قسم کی چاشنی سے شیرہ تیار کیا جاتا ہے۔ لچھا مٹھائ بنانےمیں تمام تر مہارت اور تجربہ اس کی چاشنی کو ایک خاص قوام تک تیار کرنا ہوتا ہے جو نیم گرمسے کچھ زیادہ حالت میں سخت جیلی جیسی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اگر چاشنی میں کچھ کمیبیشی رہ جائے تو پھر آپ لچھے نہیں بناسکتے۔ پھر چاشنی کو کسی لکڑی یا سنگی ہموار سطح پرپھیلا کر کافی گرم حالت میں ہی رکھ کر اس کو گول گول گھما کر گھی والی میدہ اس میں ملائجاتی ہے۔ پھرسے رول کیا جاتا ہے اور اسے کھینچ کر لمبا کر کے 8 کے ہندسے کی شکل دی جاتیہے- پھر اس میں میدہ ملا کر دوبارہ رول کرتے ہیں اور پھر لپیٹ کر 8 کے ہندسے کی شکل دے کرکھینچا جاتا ہے- یہ عمل پھرتی سے متواتر بار بار دہرایا جاتا ہے۔ درجنوں بار یہی عمل دہرانے کےبعد میدہ اور چاشنی یکجان ہوجاتے ہیں اور ساتھ ساتھ چاشنی بھی جم کر سخت ہونے لگتی ہے۔جب اس رول کو تیز چھری سے کاٹا جاتا ہے تو یہ بالوں کے ریشے جیسا بکھر جاتا ہے۔جتنی زیادہمرتبہ یہ عمل دہرایا جائے گا اتنی ہی باریک تار والا خستہ لچھا تیار ہو ھو گا— بیسن کا لچھاہلکے زرد رنگ کا جبکہ میدہ کا لچھا سفید رنگ کا ہوتا ہے۔ بعضے میدہ کے لچھے کو بھی زرد رنگدیتے ہیں لیکن یہ سفید ہی اچھا لگتا ہے۔
سوہن پاپڑی:ایرانی سوہن پشمکی: ترکی پشمکی
برصغیر پاک و ہند میں ایک مقبول یہ میٹھا دراصل ایران سے آیا ہے کیونکہ اس کے نام سوہن کیاصطلاح فارسی کی ہے۔ یہ ایران کی مشہور مٹھائ سوہان پشمکی سے کچھ مشابہت رکھتا ہےجو گیہوں کی تازہ پھوٹی ہوئ کونپلوں کے آٹے سے بنایا جاتا ہے۔ جس نے ترک کی مشہور مٹھائپشمانیہ کو جنم دیا۔ یہ عام طور پر مکعب کی شکل کا ہوتا ہے اور اس کی ساخت کرکری اور پرتدار ہوتی ہے۔
بھارت میں یہ میٹھا مہاراشٹر کی مغربی ریاستوں میں شروع ہوا، اور بعد میں یہ گجرات، پنجاباور راجستھان میں پھیل گیا۔ کچھ کتب میں اس میٹھے کی ابتدا کا سہرا ریاست اتر پردیش کو بھیدیا گیا ہے۔ یوپی بھر کے دکانداروں کے پاس سوہن پاپڑی تقریباً ہر وقت اسٹاک میں رہتی ہے اور یہبہت مقبول ہے۔ یہ میٹھا کیسے بنایا گیا یا کس نے ایجاد کیا اس کے بارے میں زیادہ معلوم نہیںہے۔ یہ ہندوستانیوں میں خاص طور پر تہواروں کے دوران ایک مقبول انتخاب ہے۔ ہندؤں میں دیوالیکے تہوار پر سوہن پاپڑی ایک روایتی میٹھے کے طور پر کھائ اور پیش کی جاتی ہے۔ اس مٹھائ کیایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ بغیر ریفریجریٹر کے بھی کئ ماہ تک محفوظ اور کھانے کے قابل رہتیہے۔
پتیسہ:
سون پاپڑی کی پتیسا سے بھی کافی مشابہت ہے جو بظاہر کہیں زیادہ قدیم مٹھائی ہے۔ پتیسا، جوسوہن پاپڑی کے مقابلے میں برفی جیسا کثیف اور پرت دار ہوتا ہے، لیکن یہ صرف بھونے ہوہےبیسن، گھی اور چینی کے ساتھ بنا برفی نما مٹھائ ہے۔ یہ ہندوستانی مون سون کے تہواروں کیخاص مٹھائ کے طور پر مشہور ہے۔
لچھا مٹھائ، سوہن پاپڑی اور پتیسہ کا فرق:
سوہن لچھا صرف میدہ، دیسی گھی اور چینی سے بنایا جاتا ہے۔ اس کے باریک بال جیسے لچھےہوتے ہیں۔ سوہن پاپڑی کا اصل جزو دراصل سمنک ہے یعنی وہ آٹا جو گندم کی تازہ پھوٹی ہوئکونپلوں کو خشک کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ آجکل سوہن پاپڑی میدہ، کارن فلاور اور گھی چینیکی مدد سے بنائ جاتی ہے جس کی شکل برفی نما اور باریک کراری پرت دار تہیں ہوتی ہیں۔ پتیسہصرف بیسن سے تیار کیا جاتا ہے جبکہ یہ سوہن پاپڑی کے مقابلے میں کم خستہ اور کرارا ہوتا ہے۔
ایک زمانے میں تھال میں لچھا مٹھائ بھی بیچی جاتی تھی جو کہ انتہائ عمدہ طریقے سے بنایاجاتا تھا کہ اس کے باریک باریک بال نما لچھےاتنے خستہ اور بھربھرے ہوتے تھےکہ ہاتھ سےاٹھانے پر بکھر جاتے تھے۔ یعنی ایسے بھی لچھا مٹھائ کے ماہر تھے جو تمام زندگی اسی سےاپنا روزگار کماتے تھے۔ اس زمانے میں اس طرح کی مٹھائیوں اور سوغاتوں کی ترکیب اور اجزا کوخفیہ رکھا جاتا تھا کیونکہ یہ ان کے روزگار کا ذریعہ ہوتا تھا۔ لیکن اب وہ لچھا مٹھائ خال خالہی نظر آتی ہے لیکن اچھے معیاری مٹھائ والوں کے یہاں اب بھی یہ لچھا مٹھائ کے گولے صافشفاف سیلوفین کی تھیلی میں پیک شدہ ملتے ہیں۔ پتیسہ کےعام طور پر چوکور یا مستطیل ٹکڑےکاٹے جاتے ہیں جن پر بادام اور پستہ کی سجاوٹ بھی کی جاتی ہے۔ اب تو پتیسہ شوگر فری بھیدستیاب ہے جسے شوگر اور زیادہ وزن والے افراد کھا سکتے ہیں۔
لاہور میں ہمارے ایک بہت اچھے فیسبک دوست ہیں جن کی رفیق سوئٹس کے نام سے کئ برانچزہیں۔ ایک مرتبہ یہ لاہور سے کراچی آئے تو بڑی محبت اور خلوص سے ہمارے لئے اپنی شاپ کی تیارکردہ دو خاص سوغاتیں نان ختائ اور لچھا مٹھائ بطور تحفہ لائے تھے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئعار نہیں کہ ان کی باداموں سے بھرپور نان ختائ مجھے لاہور کی خلیفہ نان ختائ کے مقابلےزیادہ خستہ اور لذیذ لگیں ۔ لچھا مٹھائ گول شفاف سیلوفین میں لپٹی ہوئ بالکل ریشمی اورانتہائ نفیس جس پر پستہ کی ہوائیاں بھی چھڑکی ہوئ تھیں۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ لاہور کےرفیق سوئٹس انتہائ خالص اجزا سے روایتی انداز میں نہ صرف دیسی مٹھائیاں تیار کرتے ہیںبلکہ ان میں جدید تقاضوں کے مطابق نئ نئ اختراعات کرکے مختلف مزیدار مٹھائیاں بناتے ہیں۔اشفاق بھائ اکثر مجھ سے اپنی مٹھائیوں اور حلوہ جات کی تیاری کی وڈیوز شئر کرتے رہتے ہیں۔انتہائ صاف ستھرے ماحول میں ایک نمبر خالص اجزا سے ان کی مٹھائیاں تیار کی جاتی ہیں۔اس کے ساتھ ان کی بیکری مصنوعات بھی نہایت عمدہ ہوتی ہیں۔ اگر آپ لاہور میں رہتے ہیں توضرور ان کی مٹھائیوں سے لطف اندوز ہوں۔
تو پھر بتائیے کہ آپ کے شہر کا پتیسہ کیسا ہوتا ہے؟
|تحریر✍🏻|
Sanaullah Khan Ahsan






کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں