دِلی کی اصلی بھٹیارے والی نہاری:
اصل نہاری نایاب ہوچکی:
بچپن کی بات ہے کہ جب ہم لیاقت آباد آٹھ نمبر میں مقیم اپنے ماموں کے گھر آتے وہ صبح سویرےایک چھوٹی سی بالٹی نما ڈولچی لے کر جاتے اور بھورے خان کی گرما گرم نہاری اور گرما گرمتندوری روٹیاں لے کر آتے۔ اس نہاری کی خوشبو اور ذائقہ کیا ہی لذیذ ہوتا تھا۔ آجکل کی مہنگیسے مہنگی نہاری میں وہ اصلی روایتی ذائقہ نہاری کا موجود ہی نہیں ہوتا۔ اُس زمانے میں نہاریگھر پر بنانے کا کوئ تصور ہی نہ تھا۔ نہاری کا مطلب بھٹیارے کی نہاری بازار سے لاؤ اور کھاؤ۔دوسری اہم بات یہ کہ صرف کسی ایک ہوٹل یا ریسٹورنٹ پر موقوف نہیں بلکہ گلی کوچوں اوربازاروں میں قائم چھوٹے سے چھوٹے ریسٹورنٹ میں اصل ذائقے والی نہاری مل جایا کرتی تھی۔ ابتو ہر ایرا غیرا نتھو خیرا نہاری کی دکان کھولے بیٹھا ہے، کہیں پیاز ٹماٹر والے گوشت کا ذائقہ توکہیں ایسا لگتا ہے کہ قورمے میں آٹے کا آلن ملا دیا ہو، کہیں نہاری میں اجوائن کی مہک سارےذائقے کا ناس مار دیتی ہے۔ بھلا نہاری میں اجوائن کون ڈالتا ہے۔ اور تو اور شان کے نہاریمصالحے میں بھی اجوائن شامل ہوتی ہے۔ جبکہ نہاری میں سونف زیادہ مقدار میں شامل کیجاتی ہے۔ نہاری میں پسا ہوا دھنیا بھی نہیں ڈالا جاتا بلکہ ثابت دھنیا اور کچھ دوسرے اجزا کیپلاؤ کی یخنی جیسی پوٹلی بنا کر ڈالی جاتی ہے۔ دلی کی نہاری کا ایک انتہائ اہم جزو پیپلییعنی فلفل دراز کو تو عوام تو کیا بڑے بڑے شیف اور کُک جو مختلف ٹی وی چینلز پر ککنگ شو کےاستاد بنے ہوئے ہیں تک نہیں جانتے۔ ان میں سے کتنے ہیں جو کچھ خاص مصالحوں کی یخنیجیسی پوٹلی بنا کر نہاری تیار کرتے ہیں؟
نہاری کی ابتدا:
نہاری کی ابتدا سے متعلق مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ نہاری دراصل ایک حکیمینسخہ ہے۔ کسی زمانے میں دلی کا گرم موسم معتدل رکھنے کے لئے اس کے چاروں طرف ایک نہرکھودی گئ۔ لیکن اس نہر میں کوڑا کرکٹ سے آب و ہوا میں عفونت پھیل گئ۔ لوگوں میں نزلہ زکاماور سانس کی نالیوں کی سوزش اور بخار کی وبا پھیل گئ۔ ایسے میں حکیموں نے نہاری کا نسخہترتیب دیا کہ اگر یہ نہار منہ کھائی جائے تو اس وبا سے محفوظ رہا جاسکتا ہے اور یوں نہاری نےعوام میں رواج پایا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر نہاری کو اس کے اصل نسخہ کے مطابق تیار کیاجائے تو اس سے کورونا کو بھی شکست دی جاسکتی ہے۔
دوسری روایت یہ ہے کہ لکھنؤ کے دلدادہ سمجھتے ہیں کہ اس کا آغاز اٹھارویں صدی کے آخر میںمغل سلطنت کے زوال کے بعد، نواب اودھ کے باورچی خانوں سے ہوا۔ نوابین اور امرائے سلطنت کواحساس تھا کہ اس آھستہ آھستہ پکے ہوئے گوشت اور اس کا سالن کھا لینے کے بعد ایسا خمارچڑھتا ہے کہ فجر اور ظہر کی نمازوں کے دوران ایک قیلولہ لازم ہو جاتا ہے لہٰذا وہ ایسا کرتے بھیتھے۔ گوشت میں موجود پروٹین کی زیادہ مقدار کی وجہ سے آھستہ آھستہ خون میں شکر بڑھتیجاتی جس کے نتیجے میں دن بھر بھوک کا احساس ہی نہیں ہوتا- جب ان کو نہاری کی غذائیت اوردیرپا توانائ فراہم کرنے کی خصوصیت کا احساس ہوا تو انہوں نے مزدور طبقے کو جو مختلفتعمیراتی سائٹس پر کام کرتا تھا، یہ شاندار کھانا ناشتے میں دینا شروع کردیا تاکہ مزدور بغیرتھکے دن بھر اپنا کام مستعدی سے انجام دیں۔ جو ایک وقت نہاری کھا کر، ایک کام میں جٹ جاتے،چاہے وہ ایک حویلی ہو، ایک محل، ایک سڑک، یا ایک ریلوے اسٹیشن۔ یہ مزدور ہندوستان کی تعمیرمیں مصروف تھے۔
نہاری کی جنم بھومی دلی کی نہاری کا حال زار:
اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی لکھتے ہیں کہ “دلی میں بھی پہلے گنتی کے نہاریوالے تھے۔ ایک چاندنی چوک میں۔ ایک لال کنویں پر۔ ایک حبش خاں کے پھاٹک میں اور ایک چتلیقبر اور مٹیا محل کے درمیان۔ ان میں سے ہر ایک شہر کا ایک ایک کونا دبائے ہوئے تھا۔”
لیکن اب یہ حال کہ ہے گزشتہ دنوں فیسبک ریل (Reel) پر انڈیا کے ایک فوڈ پیج پر دھلی کے ایکمعروف ریسٹورنٹ کی نہاری پکانے کا لائیو نظارہ دیکھنے کو ملا۔ اس فوڈ پیج کے دنیا بھر میںلاکھوں فالورز ہیں۔ پرانی دہلی کے عین بیچوں بیچ واقع اس ریسٹورنٹ میں نہاری تیار کرنے والانوجوان اپنے بڑبولے پن اور باڈی لنگویج سے اتراتے ہوئے ایسا تاثر دے رہا تھا گویا وہ بہادر شاہظفر کے زمانے سے بادشاہی مسجد سے متصل بھٹیار خانوں میں نہاری بناتا رہا ہے۔ لیکن ہماریحیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب اس نے اپنی نہاری کی دیگ کی ابتدا ہی اس میں پانچ کلوٹماٹر ڈال کر کی! اب اندازہ کرلیجئے کہ نہاری کی جنم بھومی دلی کے قلب میں نہاری کا کیا حشرکیا جارہا ہے کہ دل پارہ پارہ ہوگیا۔ اب نہ وہ وضع دار نہاری والے رہے، اور نہ وہ نہاری۔ اب توبس نہاری کے نام پر کاروبار رہ گیا ہے۔
کراچی کی ادریس نہاری والے بڑے میاں بڑے نام اور شہرت کے باوجود آج بھی خود دیگ پر بیٹھتےہیں۔ یاردوست کہتے ہیں شہر بھر میں برانچ کھول لو۔ بڑے میاں کہتے ہیں کہ ہر برانچ میں ادریسکہاں سے بٹھاؤنگا۔
ہمارے ایک دوست حاجی ادریس کی نہاری کے بارےمیں کہتے ہیں
“کراچی سمیت کی کافی مشہور نہاریاں کھا چکا ہوں لیکن اپنی تان صرف حاجی ادریس دہلینہاری پر ہی ٹوٹتی ہے جن سے روشناس عرصہِ پندرہ سال پہلے دہلی سے تعلق رکھنے والے ہمارےدوست کے والد مرحوم نے کروایا تھا حاجی صاحب کو خبر کی کہ بچے آرہے ہیں اسپیشل بونگ الگکر لیو اور گائے کا تازہ مکھن میں ان کے ہاتھ بھجوا رہا ہوں فرائی کے لئے تڑکہ بھرپور لگانا ہے ،ہم پہنچ گئے حاجی صاحب کو مکھن دیا اور اسپیشل مغز نلی فرائی تسلے میں گرما گرم ہمارےسامنے رکھوا دی ساتھ ادرک ہری مرچ اور ایک خاص مصالے کے ساتھ لیموں کا چھڑکاوُ کرکےگرم خستہ نان کا نوالہ جب بونگ پر رکھ کے ہلکا سا دبایا تو نوالہ اندر دھنستا چلا گیا ، بس وہ دنہے اور پھر چل سو چل ۔۔۔۔آخری مرتبہ پچھلے ہفتے صبح کھانے گئے تو یم سے پہلے مصطفیٰ کمالصاحب سابق سٹی ناظم بمعہ پروٹوکول نوش فرما رہے تھے ۔
جن بزرگ کا ذکر کر رہا ہوں وہ کھانے پینے کے انتہائی شوقین اور انتہا کے گوشت خور تھے۔گارڈن ویسٹ کی بڑی مقبول شخصیت تھے۔ امین نام تھا مینا بھائی ٹائر والے کے نام سے کافیمشہور تھے۔ جب عمر کی زیادتی اور بیماری کے دنوں میں ڈاکٹر نے گوشت پر پابندی لگائی توصاف کہہ دیا کہ سب چھوڑ دیں گے سوائے حاجی ادریس نہاری ک۔ یہاں تک ایسا ٹائم آیا جبروٹی بھی نہیں چبا سکتے تھے تب بھی بیٹے کو بھیج کر بونگ منگوائی اور چمچ سے کھائی ایکہفتے بعد دارِ فانی سے کوچ کر گئے اللہ مغفرت فرمائے۔”
نہاری کی وجہ تسمیہ:
نہاری کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ نہاری ایک سالن ہے جو دہلی والوں کی مخصوص ڈش ہے۔ صبحمشرق سے طلوع ہوتے سورج کی کرن کا وقت نہار کہلاتا ہے۔ جیسا کہ اکثر حکیم حضرات کسیدوا کا وقت نہار منہ بتاتے ہیں۔ یعنی صبح اٹھتے ہی جو سب سے پہلی چیز کھائ جائے وہ نہار منہکہلاتی ہے۔ نہاری اٹھارویں صدی کے اوآخر میں پرانی دہلی میں جامع مسسجد اور دریاگنج کےعلاقے میں پکائی جاتی تھی۔ مغلوں کے دربار اور مسلمانوں کا من پسند ناشتا تھا۔ نہاری اور ناندہلی والوں کا ناشتہ ہے۔ یہ رات بھرپکا ئ جاتی تھی دہلی والے جامع مسجد فجر کی نماز پڑھنےجاتے تو برتن ہوٹل کے چبوترے پر دیگ کے پاس رکھ جاتے لائن کا خیال رکھتے نماز کے بعد دیگکھولیں جاتی اور گرم نہاری اور نان لے کر گھر آتے۔ گھنٹے بھر میں دیگ ختم ھو جاتی۔ معروفکالم نگار محترمہ رئیس فاطمہ ایک مضمون میں لکھتی ہیں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر یا دلّی کےکسی کوچے میں قورمے کی دیگ کھلتی تھی اور بریانی کی دیگ سے ڈھکن اٹھایا جاتا تھا تو اسکی مہک میرٹھ اور ہاپوڑ تک پہنچتی تھی۔‘‘
بہادر شاہ ظفر کے دور کی نہاری آج بھی!
دھلی کی جامع مسجد سے متصل کچھ ریسٹورنٹس میں آج بھی یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ان کےریسٹورنٹ میں بہادر شاہ ظفر کے زمانے کی نہاری دستیاب ہے۔ بیرے سے پوچھئے تو وہ فوراً رٹےرٹائے لچھے دار لہجے میں بتائے گا کہ جناب آپ نہاری نہیں تاریخ کا ذائقہ چکھنے والے ہیں۔ وہبتائے گا کہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے سے یہ روایت تھی کہ روزانہ نہاری میں سے ایک پیالہنہاری بچا لی جاتی جسے اگلی صبح، نہاری کی تازہ دیگ میں ڈالا جاتا۔ یہ دعوی ہیڈ کیشئر سےلے کر ہوٹل کا تمام اسٹاف آپ سے کرے گا۔ یہ روایت کب سے جاری ہے یہ بھی کسی کو نہیںمعلوم۔ لیکن کھانوں کے شوقین افراد کے لئے اس کہانی میں زبردست اور تاریخی شان و شوکتضرور موجود ہے۔
کراچی میں نہاری کی ابتدا:
قیام پاکستان کے بعد جب انڈیا سے مہاجرین کراچی آئے تو دلی سے تعلق رکھنے والوں نے کراچیمیں نہاری کا آغاز کیا۔ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ کراچی میں نہاری کا آغاز بھائ نعمان ( یر داساسٹریٹ،رنچھوڑ لین ) سے غالبا" سن 60، 62 سے شروع ھوا اصل نہاری والا ذائقہ انکے پاس ملتاتھا۔ اس کے بعد تقی، صابری اور ملک کی نہاری کافی مشہور ھوئ۔ لیاقت آباد میں بھورے خانکی نہاری ستر (70) کی دہائی میں متعارف ھوئ۔ کراچی میں دو ہوٹل ایسے تھے جو اصلی دلّیکے خاندانی باورچیوں کے تھے۔ ایک دہلی مسلم ہوٹل اور دوسرا دہلی کالی ہوٹل لیکن ان کی اولادوںسے باپ دادا کی روایت نہ نباہی گئ۔
1970ء کی دہائی میں کراچی کی آبادی بڑھنے کے سبب کراچی کے مضافات میں کئی علاقے بسگئے۔ یہاں نئے نئے ریسٹورنٹ کھلے۔ خاص کر پہلے نہاری جو قلب شہر کے چند نہاری کے ہوٹلوںسے ہی ملا کرتی تھی، ہر ہوٹل کے باہر "دہلی کی نہاری" کا حوالہ ضرور ہوتا تھا۔ کراچی کے چنداہم ریسٹورینٹس میں صابری ہوٹل، ملک کی نہاری، دہلی ہوٹل، دہلی مسلم کالی ہوٹل، طارق روڈ کینہاری، ناظم آباد کی ممتاز نہاری، زاہد کی نہاری، سہیل کی نہاری، کیفے ذائقہ، جاوید کی نہاری،ادریس کی نہاری ، نہاری ان، کراچی نہاری اور تاج نہاری کے نام لیے جاتے ہیں۔
گائے کے گوشت کی سادہ نہاری سب سے زیادہ کھائی جاتی ہے۔ پھر فرائی مغز نہاری، پایانہاری، نلی نہاری اور اب تو مرغی نہاری بھی دستیاب ہے لیکن گائے کے بونگ کی نہاری کوپسندیدہ ترین جانا جاتا ہے۔
تقی کی نہاری کامزہ بہت ہی منفرد اور شاندار ہوا کرتا تھا۔ زاہد کی کم مرچ والی نہاری جبکہملک کی نہاری میں مرچ تیز ہوتی تھی جاوید کی نہاری کا رنگ کافی گہرا ہوتا ہے۔ ہمارے گھر میںنہاری کسی بھی ریسٹورنٹ سے آۓ ہر نہاری پر دیسی گھی اور پیاز کا بگھار لگایا جاتا ہے۔
کراچی والوں کے گوش گزار کردوں کہ اس وقت کراچی میں اگر کہیں واقعی دلی کی روایتی نہاریاپنے اصلی ذائقے کے ساتھ دستیاب ہے تو وہ پی آئ بی کالونی میں مُلّا کی نہاری ہے۔ اس نہاریکی سند قبولیت کے لئے یہی کافی ہے کہ دھلی مسلم ہوٹل والوں کے پوتے صاحب جو ہمارے فیسبکدوست ہیں وہ مُلّا کی نہاری کے ایسے رسیا ہیں کہ ھفتے میں ایک بار تو لازمی وہاں نہاری کھانےجاتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بھی لے کر جاتے ہیں۔ ہمیں بھی کئ بار مدعو کرچکے ہیں لیکن ہماپنی روایتی سستی اور کاہلی کی وجہ سے نہاری کی یہ دعوت مِس کردیتے ہیں۔ مُلّا نہاری کےبالمقابل کراچی کا بہترین فرائ قیمہ اور فرائ گوشت کا ریسٹورنٹ بھی ہے جو اُس وقت سے قائم ہےجب کراچی والے کڑاھی کے ذائقے سے نا آشنا تھے۔ کراچی میں کڑاھی گوشت اور فرائ مٹن و قیمہصرف لسبیلہ چورنگی اور سُہراب گوٹھ پر ٹرک ڈرائیوروں کے لئے قائم آفریدی پشتونوں کےریسٹورنٹس پر ملا کرتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ دھلی مسلم ہوٹل والے کب کے اپنا ہوٹل بیچ باچ کرامریکہ سدھار گئے۔ اب ان کی اولادیں وہاں پیزا فروخت کررہی ہیں۔
بھٹیارے کی اصلی نہاری:
ہوٹل یا بھٹیارے کی نہاری کا جو ذائقہ ہے، وہ دراصل اس زمین میں گڑی دیگ میں رات بھر ہلکیآنچ پر پکنے والے گوشت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ نہاری ہم نے بھی کھائ ہے۔ تندور سے نکلی ہوئگرم گرم پھولی ہوئ روٹی اور تُرت دیگ سے نکلی ہوئی نہاری۔ اس پر جھاڑی ہوئ نلی اور بھیجا ،اوپر سے کڑکڑاتے دیسی گھی میں لال پیاز کا تڑکا، حلوان بونگ کی بے ریشہ بوٹیاں۔ ادرک کےباریک لچھے، کتری ہوئی ہری مرچوں کی ہوائیاں، ھلکا سا لیموں کا نچوڑ۔ یہ تمام لوازمات سےمزین نہاری کا لطف اٹھانے واسطے آپ کو نہاری کی دکان پر صبح سویرے خود موجود ہونا چاہئے۔گھروں میں یہ تمام لوازمات ایک ساتھ مہیا کرنا بڑا کٹھن ہے۔ اس لیے جو اصل میں نہاری کا لُطفاٹھانا چاہتے تھے، انھیں دکان ہی پر جانا پڑتا ہے۔ جب ملازم گرم گرم روٹی لاتا جاتا ہے اور آپحلوے جیسی نرم گلی ادلے کی بوٹی کے ریشے کے ساتھ نلی کی مینگ اور بھیجے کی پُھٹکی نوالےمیں لپیٹ کر اسے گاڑھی گریوی اور سرخ دیسی گھی کے روغنی تار میں تر کر کے نوالہ منہ میںرکھتے ہیں تو واللہ خدا کی خدائی یاد آجاتی ہے۔
کراچی کے ہوٹلوں میں نہاری اسی طرح بنتی ہے۔ صبح سویرے نہاری کی دیگ پر بیٹھنے والاپیڑھی یا گدی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا دیگ کے ڈھکن کے چاروں طرف لگا آٹا اتار کر ڈھکن ہٹاتاہے۔ اس ڈھکن کے نیچے دیگ کے کناروں پر جما ہوا ململ کا بل دے کر گول موٹے رسے نما کپڑا ھٹاتاہے تو تیز بھاپ کی کیا ہی اشتہا انگیز سونف، سونٹھ اور گوشت مصالحوں کی بھاپ کی خوشبوپھیل جاتی ہے۔ نہاری کے ذائقے میں ایک دخل اس ململ کے کپڑے کا بھی ہوتا ہے جس کو صرفپانی سے کھنگال کر سکھانے کو پھیلا دیتے ہیں۔ رات کو پھر وہی کپڑا دوبارہ نئی نہاری چڑھاتےوقت دیگ کے منہ پر باندھ دیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے رات بھر پکی نہاری کے اوپر اکٹھا ہوا سرخ روغنی تار نکال کر ایک الگ پتیلے میںنکال لیا جاتا ہے۔ دیگ میں صرف گاڑھی گریوی رہ جاتی ہے۔ پھر اس دیگ میں بڑا لمبا گفگیر ڈالکر کلو کلو کے بونگ کے گلے ہوئے چار پانچ بوٹے نکال کر ایک تسلے میں رکھ دیے جاتے ہیں۔ اسیمیں سے وہ کفگیر کی مدد سے بوٹی توڑ کر پلیٹ میں ڈالتا ہے اور پھر دیگ میں کفگیر سے گریوینکال کر بوٹی کے اوپر انڈیل دیتا ہے۔ ساتھ ہی الگ رکھے بڑے دیگچے سے سرخ روغنی تار گریویکے اوپر ڈال دیتا ہے۔ ان کا کفگیر کوئی چار فٹ لمبا اور کافی بھاری ہوتا ہے۔ ہر کوئی نہاری کیدیگ پر بیٹھ کر اس مہارت اور پھرتی سے نہاری نہیں نکال سکتا بلکہ اس کے لیے بہت مہارت کیضرورت ہوتی ہے، اور اس کام کے لیے ہوٹل پر ایک مخصوص ملازم ہوتا ہے۔ اس سے بھی زیادہمہارت نہاری کو پارسل کے لیے پلاسٹک کی تھیلی میں ڈالنے کے لیے چاہیے ہوتی ہے۔ نہاری کا اصللطف بس اسی وقت ہوتا ہے۔
آجکل گھر گھر پیکٹ مصالحہ نہاری:
آج کل اکثر گھر گھر پیکٹ مصالحہ اور گوشت کُکر میں ڈال کر گھنٹہ بھر میں نہاری تیار کرلیجاتی ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی نہاری ہوتی ہے؟ آپ لاکھ کوشش کرلیجیے ریسٹورنٹ جیسی نہارینہیں بن پاتی۔ خواہ آپ گھر کے مصالحے استعمال کریں یا پیکٹ والے۔ گھر کی نہاری میں وہ ذائقہنہیں آتا جو بازار کی نہاری میں ہوتا ہے۔ اس میں کچھ خاص باتیں یاد رکھیے۔ سب سے پہلی باتتو یہ کہ اصلی نہاری میں پسا دھنیا نہیں ڈالا جاتا۔ جتنی بھی نہاری کی ترکیبوں میں دھنیا پاؤڈرشامل کیا جاتا ہے، وہ غلط ہے۔ نہاری کی تیاری میں دوسری خاص راز کی بات کچھ خاصمصالحے بھی ہیں جو عموما گھر میں تیار ہونے والی نہاری میں شامل نہیں کیے جاتے۔ اس کےعلاوہ کچھ ثابت مصالحے جن کی پوٹلی بنا کر نہاری میں ڈالی جاتی ہے۔
دلی کی نہاری کے اصل ذائقے کا راز:
آج آپ کو بالکل اصلی دہلی والی نہاری گھر میں تیار کرنے کی ترکیب بتائی جا رہی ہے۔ ترکیبمیں موجود تمام اجزا شامل ہوں گے تبھی اصلی دھلی والی نہاری بن سکے گی۔ ان اجزا میں ایکخاص جز پپلی ہے۔ پپلی کو فلفل دراز بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں یہ لانگ پیپر کہلاتی ہے۔ اس کامزہ چرپرا اور تیز مرچ جیسا ہوتا ہے۔ یہ ہاضم ہے اورقوت باہ بھی بڑھاتی ہے۔ بقایا تمام مصالحےتو آپ کو عام گروسری اسٹور سے مل جائیں گے، لیکن پپلی آپ کو پنساری کے پاس ملے گی۔ یہبھی ایک طرح کی مرچ ہے جو لمبی لمبی اسٹکس کی صورت میں ہوتی ہے اور اس کی ایک خاصمہک یا خوشبو ہوتی ہے جس کے بغیر اصلی دہلی والی نہاری نہیں بن سکتی، اس لیے نہاری بنانےکے لیے اس کو لازمی حاصل کیجیے۔ کچھ لوگ آٹے کو بھون کے ڈالتے ہیں وہ بھی غلط ہے بلکہکچھ سیلف میڈ ریسپیز میں کارن فلاور یا میدہ ڈالتے بھی دیکھا ہے جو بالکل غلط ہے۔ صرف نارملچکی آٹا ہلکے گرم پانی میں لئی سی بنا کے ڈالیں۔ گائے کی نہاری سب سےزیادہ اچھی بنتی ہےبلکہ اصلی نہاری کا ذائقہ بیف میں ہی آتا ہے کیونکہ اس میں شامل چکنائی ذائقے کو دوبالا کرتیہے اور اس کے ریشے بھی اچھے بنتے ہیں۔
 |
| پپلی۔ فلفل دراز |
دلی نہاری کی ریسپی:
اب ہم آپ کو اصلی ریسٹورنٹ والی دہلی نہاری کی ترکیب بتاتے ہیں۔ نہاری کے لیے سب سےبہترین گائے کا گوشت ہے۔ یہ گوشت بونگ کا ہونا چاہیے اور چکنائ کے ساتھ ہونا چاہئے۔ بڑے ٹکڑےہونے چاہییں۔ مثال کے طور پر اگر یک کلو گوشت کا ٹکڑا ہے تو اس کے چار ٹکڑے کروا لیجیے۔ اسسے چھوٹے نہیں۔ اس کے علاوہ گوشت پر لگی چکنائی وغیرہ بھی بالکل صاف نہ کروائیں۔
اجزا:
گائے بونگ کا گوشت چربی والا ایک کلو (چار بڑے ٹکڑے) ، نلی والی ہڈیاں 1کلو،
نمک حسب ضرورت، کشمیری مرچ پاؤڈر (اس کا پاؤڈر بازار سے مل جاتا ہے) 2 ٹیبل چمچ، ہلدیآدھا چائے کی چمچ، سونٹھ 2 بڑے ٹکڑے، پپلی یعنی فلفل دراز 4 عدد، بادیان کے پھول 2 عدد، جائفلپسا ہوا چوتھائی چائے کا چمچ، جوتری پسی ہوئی چوتھائی چائے کا چمچ، کالی مرچ آدھا کھانےکا چمچ، سفید زیرہ آدھا کھانے کا چمچ، کالا زیرہ آدھا کھانے کا چمچ، دارچینی 2 ٹکڑے، (یہ اوپروالے تمام مصالحے باریک پیس لیجیے)
پیاز ایک درمیانی گٹھی، تیل یا گھی 3 کپ، ادرک لہسن پیسٹ 3 کھانے کے چمچ، آٹا آدھا کپ، پانیحسب ضرورت
پوٹلی کا مصالحہ:
ثابت دھنیا تین کھانے کے چمچ، تیج پات 2 بڑے پتے، بڑی الائچی کچلی ہوئ 2 عدد، چھوٹی الائچیکچلی ہوئ 5 عدد، سونف 3 کھانے کے چمچ، لونگ 6 عدد، (یہ سب مصالحے ایک ململ کی پوٹلیمیں باندھ لیجیے)،کچھ لوگ سونف کو پیسے ہوئے مصالحے میں شامل کرتے ہیں۔
گارنشنگ کے لیے۔
ادرک لمبی لمبی باریک کترنیں کٹی ہوئی، حسب ضرورت ہری مرچ باریک کٹی ہوئی لیموں، نہاری کااسپیشل گرم مصالحہ سرو کرتے وقت اوپر سے چھڑکنے کے لیے۔
نہاری کا اسپیشل گرم مصالحہ سرو کرتے وقت اوپر سے چھڑکنے کے لئے:
اجزا:
پپلی۔ 2 عدد، سفید زیرہ2 کھانے کے چمچ، کالی مرچ۔ ایک کھانے کا چمچ
بڑی الائچی2 عدد، لونگ8 عدد، دارچینی۔ڈیڑھ انچ کا ٹکڑا۔
نہاری اسپیشل گرم مصالحہ کے تمام اجزا کو گرائنڈر میں بالکل باریک پیس کر بوتل میں بھرلیجئے۔ اور نہاری سرو کرتےوقت زرا سا پلیٹ میں چھڑک دیجئے۔ اس سے نہاری مزید ذائقہ دار اورخوشبو دار ہوجاتی ہے۔
ترکیب:
گوشت اور نلیاں اچھی طرح دھو لیجیے۔ا یک کافی بڑی بھاری پیندے کی پتیلی میں گھی گرمکیجیے۔ پیاز لال کیجیے، اس میں گوشت اور نلیاں اور ادرک لہسن ڈال کر دس منٹ بھون لیجیے۔ اسکے بعد مرچ، کشمیری مرچ نمک ہلدی اور دوسرے پسے ہوئے تمام مصالحے اس میں شامل کردیں۔یہ مصالحے ڈال کر پانچ منٹ بھونیے۔ اس کے بعد اس میں اتنا کافی پانی ڈالیں کہ تمام بوٹیاںاچھی طرح ڈوب جائیں اور پکنے کے دوران اچھی طرح گل جانے کے بعد بھی شوربا گریوی موجودرہے، اس کے ساتھ ہی مصالحوں والی پوٹلی بھی ڈال دیجیے۔ اس میں آٹا بھی پانی میں اچھیطرح گھول چھان کر شامل کردیجیے۔ اب اس کو پہلے تیز آنچ پر پکائیں، جب ابلنے لگے تو آنچ ھلکیکردیجیے اور پتیلی کے سائڈوں پر پر کوئی ململ کا کپڑا جما کر اس پر ڈھکن رکھ کر کوئی وزن رکھدیں، جیسے کہ سل کا بٹہ وغیرہ۔ اب اس کو ہلکی آنچ پر چار گھنٹے تک پکنے دیجیے۔ یاد رکھیےکہ نہاری کُکر میں نہیں بنائی جاتی۔ اگر کُکر میں بنائی تو مصالحوں کا ذائقہ اور خوشبو نہاریگریوی اور گوشت میں رچ بس نہیں پائے گا۔ چار گھنٹے بعد چیک کیجیے۔ یاد رکھیے کہ نہاری کاگوشت بالکل حلوان ہونا چاہیے۔ چمچے سے دبانے پر ریشہ ریشہ ہو جائے۔ اگر گوشت خوب اچھیطرح گل گیا اور روغن اوپر آگیا ہو تو روغن کو کفگیر کی مدد سے اتار کر ایک الگ برتن میں ڈاللیجیے۔ دھنیے اور تیز پات کی پوٹلی اچھی طرح شوربے میں دبا دبا کر نچوڑ کر الگ کر دیجیے۔
اب نہاری کا گاڑھا پن چیک کیجیے۔ اگر گاڑھا پن کم ہو تو آدھا کپ آٹا پانی میں گھول کر چھانلیجیے اور اس کو نہاری میں شامل کر کے ہلکی آنچ پر اتنا پکائیں کہ گریوی مناسب گاڑھیہوجائے۔ نہاری تیار ہے۔ نلیاں نکال کر علیحدہ رکھیے اور ان کا مغز نکال لیجئے۔
اب جب نہاری سرو کرنے کے لیے پلیٹ میں نکالیں تو الگ سے نکالی ہوئی نلی کا کچھ مغز اور پہلےسے نکالا ہوا تری یا روغن بھی تھوڑی سی اوپر ڈال دیں۔ اس پر ذرا سا پسا ہوا اسپیشل نہاری گرممصالحہ چھڑک کر گارنش والے ہرے مصالحے کے ساتھ پیش کیجیے۔ تندوری نان کے ساتھ تناولفرمائیں۔ اور گھر میں اسپیشل دہلی کے بھٹیارے والی نہاری کا لطف اٹھائیں۔
کچھ لوگ نہاری پر دیسی گھی میں پیاز لال کر کے اس کا بگھار بھی لگاتے ہیں۔ مغز نہاری کےلیے ایک عدد گائے کا مغز یا تین عدد بکرے کے مغز کو پسا لہسن اور ہلدی ڈال کر ابالیں۔ دس منٹابالنے کے بعد مغز کی جھلی اور نسیں صاف کر کے نہاری میں ڈال کر پانچ منٹ پکائیں۔ پھر اسکو الگ نکال کر رکھ لیجئے۔ سرو کرتے وقت تھوڑا سا مغز بھی پلیٹ میں شامل کردیں۔ یاد رکھیےکہ اگر آپ نے تمام مصالحوں کے ساتھ درست طریقے سے نہاری بنائی تو آپ کو نہاری کا وہیذائقہ ملے گا جس کو پرانے لوگ یاد کر کے کہتے ہیں کہ اب وہ بچپن کی نہاری کا ذائقہ نہیں ملتا۔
Ref:
Nihari, a gift from Nawabs - Times of India, History Of The Meaty and Buttery Breakfast,
Food Stories: Nihari - DAWN.COM, History of Nihari,
Sealed in the Flavor: A History of Nihari - Youlin Magazine